سابقہ مہاجر بچہ، اب آسٹریا کا صدر
5 دسمبر 2016گزشتہ روز آسٹریا میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے دوسرے اور حتمی مرحلے میں گرین پارٹی کے سابقہ رہنما اور ان انتخابات میں بہ طور آزاد امیدوار حصہ لینے والے الیگزانڈر فان ڈیئر بیلین کامیاب ہوگئے۔ بیلن اور ان کے عوامیت پسند حریف نوربیرٹ ہوفر کے درمیان متعدد دیگر امور کے علاوہ سب سے اہم فرق مہاجرین سے متعلق موقف میں تھا۔ نوربیرٹ مہاجرین کو ’قبضہ کرنے والے‘ تک کہہ چکے ہیں اور مہاجرین کے حوالے سے سخت ترین پالیسیاں وضع کرنا چاہتے ہیں، جب کہ دوسری جانب فان ڈیئر بیلین مہاجرین سے متعلق نرمی کی پالیسیوں کے داعی ہیں۔
ماضی میں گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والے اس سیاست دان کا اپنا پس منظر مہاجرت سے جڑا ہے۔ فان ڈیئر بیلین سن 1944ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد روس جب کہ ان کی والدہ ایسٹونیا سے تعلق رکھتی تھیں، جب کہ فان ڈیئر بیلین کا ڈچ نام اس لیے ہے، کیوں کہ ان کا خاندان اٹھارہویں صدی میں ہالینڈ سے روس منتقل ہوا تھا۔
اپنی ایک بیان میں بیلین نے کہا، ’’میں خود ایک مہاجر خاندان سے تعلق رکھتا ہوں اس لیے آپ مجھ سے یہ توقع تو ہر گز نہ کیجئے کہ میرے والدین کو واپس بھیج دیا جانا چاہیے تھا۔‘‘
فان ڈیئر بیلین مہاجرین کے خلاف حکومتی پالیسیوں اور ان کی ملک میں داخلے پر قدغن کے حوالے سے تنقید کرتے آئے ہیں۔ فان ڈیئر بیلین مضبوط یورپی یونین چاہتے ہیں اور اس معاملے پر بھی وہ اپنے حریف نوربیرٹ ہوفر سے بالکل مختلف نکتہ ہائے نظر کے حامل ہیں۔ ہوفر رکن ریاستوں پر یورپی یونین کے اختیارات میں کمی کا تقاضا کرتے آئے ہیں۔ فان ڈیئر بیلین کا کہنا ہے کہ ایک ایسے موقع پر کہ جب امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہو چکے ہیں، یورپ کو اپنے محفوظ مستقبل کے لیے مزید یکجا ہونے کی ضرورت ہے۔
آسٹریا میں صدر کا عہدہ رسمی ہے، تاہم یہ انتخابات یورپی یونین کے حامیوں کے لیے ایک سکھ کا سانس ہیں۔ حالیہ کچھ عرصے میں مہاجرین کے بحران اور یورو زون کے معاملات کے علاوہ بریگزٹ ریفرنڈم اور یورپ بھر میں انتہائی دائیں بازو کی یورپ مخالف جماعتوں کی وجہ سے اس بلاک کے مستقبل پر کئی طرح کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔