سارک سیٹلائٹ منصوبہ: ’پاکستان کو بھارت کی ضرورت نہیں‘
7 جون 2015ایک حکومتی عہدیدار کا نیوز ایجنسی پی ٹی آئی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انہوں نے اسلام آباد کو چھوڑ کر باقی علاقائی ملکوں کے ساتھ بات چیت کا آغاز کر دیا ہے۔ اس عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ’’پاکستان کے علاوہ تمام سارک ملکوں نے مثبت جواب دیا ہے۔ ہر کسی نے باقاعدہ طور پر اس منصوبے میں شمولیت سے متعلق جواب دیا ہے، صرف پاکستان کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اس منصوبے سے متعلق ان کی اندرونی مشاورت جاری ہے۔‘‘ اس حکومتی اہلکار کے مطابق اب دیگر ملکوں کے ساتھ مشاورت کا عمل آگے بڑھایا جائے گا۔
انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن کے سربراہ کِرن کمار کا کہنا تھا، ’’ رکن ملکوں کے ساتھ رواں ماہ کے اوآخر میں اس موضوع پر ایک اجلاس کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔‘‘ بھارت نے گزشتہ برس انتہائی کامیابی کے ساتھ اپنا ایک مواصلاتی سیارہ خلاء میں بھیجا تھا، جس کے بعد نریندر مودی نے کہا تھا کہ سارک ممالک کے مابین زیادہ ہم آہنگی ضروری ہے اور خطے کا ایک مشترکہ سیٹلائٹ ہونا چاہیے۔
یہ بھارتی منصوبہ جنوبی ایشیا میں چین کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی ہے کیونکہ بھارتی اسپیس ایجنسی کئی دیگر ملکوں کے سیٹلائٹ بھی خلاء میں بھیجنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ مودی کے بیان کے بعد نئی دہلی حکومت نے تمام سارک ممالک کو اس منصوبے میں شمولیت کے دعوت نامے بھیجے تھے۔ بھارتی نیوز ایجنسی نے اپنے ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے ابتدائی ردِعمل کے بعد اب تمام ملکوں کے نمائندے رواں ماہ کے آخر میں ایک ساتھ مل کر بیٹھیں گے۔
انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن کے مطابق مجوزہ منصوبے کے تحت سارک ممالک مشترکہ سیٹلائٹ کو مختلف مقاصد کے لیے استعمال کر سکیں گے۔ اس بھارتی منصوبے کے برعکس چند ایک سارک ممالک پہلے ہی اپنے مواصلاتی سٹیلائٹ خلاء میں بھیج چکے ہیں۔ پاکستان نے اپنا مواصلاتی سیارہ سن 2011 میں چین کی مدد سے زمینی مدار میں چھوڑا تھا۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کا اسپیس اینڈ ریسرچ کمیشن پہلے ہی چین کے قومی اسپیس ادارے (سی این ایس اے) کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے اور چین کا یہ قومی ادارہ بھارت کی نسبت کہیں زیادہ ترقی کر چکا ہے۔ سری لنکا نے بھی اپنا مواصلاتی سیارہ چین کی مدد سے زمینی مدار تک بھیجا تھا جبکہ افغانستان نے اپنا سٹیلائٹ ایک فرانسیسی کمپنی سے لِیز پر لے رکھا ہے۔