سارک وزرائے داخلہ میٹنگ میں راج ناتھ سنگھ کی شرکت
2 اگست 2016
راج ناتھ سنگھ کا اسلام آباد کایہ دورہ ایک ایسے وقت پر ہو رہا ہے جب بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جاری تشدد کے حالیہ واقعات میں اب تک پچاس افراد ہلاک اور چھ ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ راج ناتھ سنگھ نے کشمیر کی موجودہ کشیدہ صورت حال کے لیے پاکستان کو براہ راست مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام آباد کو یہ بات اچھی طرح سمجھنی چاہیے کہ ہمارے نوجوانوں کو ہتھیار اٹھانے کے لیے بھڑکانادرست نہیں ہے اور چونکہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے اس لیے اسے کشمیر میں تشدد کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے۔
اطلاعات کے مطابق اسلام آباد میں ہونے والی سارک وزرائے داخلہ کانفرنس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ، منشیات کی لعنت اور بچوں و خواتین کی بردہ فروشی کے خلاف اقدامات نیز سارک ممالک کے شہریوں کے لیے ویزا میں چھوٹ جیسے امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جنوری میں پٹھان کوٹ ایئر بیس پر ہونے والے دہشت گردانہ حملہ کے سلسلے میں بھارتی تفتیش کاروں کو پاکستان کا دورہ کرنے کی اجازت کا معاملہ اور جموں و کشمیر میں حالیہ دہشت گردانہ حملہ میں پاکستان کے مبینہ طور پر ملوث کے شواہد اسلام آباد کو سونپنے پر بھی غور کیا تھا۔ لیکن داخلی سیاسی مجبوریوں اور دیگر اسباب کی بنا پر حکومت نے بعد میں یہ ارادہ ترک کردیا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مودی حکومت ایسا کوئی قدم اٹھانا نہیں چاہتی جو اس کے لیے ایک نئی مصیبت بن جائے۔ گزشتہ سال دسمبر میں وزیر اعظم نریندر مودی نے اچانک لاہور جا کر پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کر کے سب کو حیرت زدہ کر دیا تھا لیکن اس کے چند دنوں بعد ہی پٹھان کوٹ کا واقعہ پیش آگیا۔ جس کے بعد اپوزیشن جماعتوں نیز حکومت کی حلیف جماعتوں نے بھی حکومت کی پاکستان کے حوالے سے پالیسی پر سخت نکتہ چینی کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ راج ناتھ سنگھ کے ساتھ دورے میں قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال، انٹیلی جنس بیورو کے ڈائریکٹر دنیشور شرما اور داخلی سلامتی کے اسپیشل سیکرٹری شامل نہیں ہوں گے۔ حتی کہ وہ سرکاری ڈنر میں بھی شرکت نہیں کریں گے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوروپ نے راج ناتھ سنگھ کے اس دورے کے حوالے سے کہا، ’’وزیر داخلہ پاکستان کے ساتھ کوئی باہمی بات چیت کے لیے نہیں جارہے ہیں، وہ سارک کی ایک میٹنگ میں شرکت کے لیے جارہے ہیں۔ ہم علاقائی تعاون اور علاقائی خوشحالی کے لیے سارک کو کافی اہمیت دیتے ہیں۔ اس لیے آپ اس دورے کو اسی پس منظر میں دیکھیے۔ اس سے پہلے بھی سار ک وزرائے داخلہ میٹنگوں میں بھارت کے وزرائے داخلہ شرکت کرتے رہے ہیں۔‘‘
وکاس سوروپ کا مزید کہنا تھا، ’’بھارت پاکستان کے ساتھ پرامن اور باہمی تعاون کا تعلق رکھنا چاہتا ہے اور تمام حل طلب امور پر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے لیکن اس کے لیے دہشت گردی اور تشدد سے پاک ماحول ضروری ہے۔ اور سیاسی مذاکرات کے لیے مناسب حالات پیدا کرنا پاکستان کی ذمہ داری ہے۔‘‘
جب بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان سے پوچھا گیا کہ کیا راج ناتھ سنگھ اپنے پاکستانی ہم منصب چودھری نثار علی خان سے ملاقات کے دوران انہیں دہشت گردی کے حوالے سے بھارت کی طرف سے کوئی معلومات، دستاویز یا انکوائری رپورٹ پیش کریں گے تو وکاس سورو پ کا کہنا تھا، ’’اس طرح کی کوئی تجویز نہیں ہے اور وہ صرف کثیر فریقی سارک میٹنگ میں شرکت کے لیے جارہے ہیں۔‘‘
ادھر بھارتی وزیر داخلہ کے دورہ کے خلاف جماعت الدعوہ کے سربراہ حافظ محمد سعید کی طرف سے پورے پاکستان میں احتجاجی مظاہروں کے اعلان کے سبب ممکنہ سکیورٹی تشویش کے حوالے سے بھارت کے نائب وزیرداخلہ کرن رجیجو کا کہنا تھا کہ اس طرح کے معاملے سے نمٹنا پاکستان کی ذمہ داری ہے۔
خیال رہے کہ سارک سربراہان مملکت نے نومبر 2005ء میں ڈھاکا میں تیرہویں سارک سمٹ میں فیصلہ کیا تھاکہ انسداد دہشت گردی کے شعبے میں باہمی تعاون کو مستحکم کرنے کے لیے سارک رکن ملکوں کے وزرائے داخلہ کی ہر سال ایک میٹنگ ہوا کرے گی۔