اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایک صحافی مدثر نارو سمیت چھ جبری لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے حکم دیا کہ نو ستمبر کو ہونے والی سماعت پر یا تو مذکورہ لاپتہ افراد کو پیش کیا جائے یا پھر وزیرِ اعظم شہباز شریف ذاتی طور پر حاضر ہوں ۔لاپتہ افراد تو خیر کیا پیش ہوتے وزیرِ اعظم کو ہی آنا پڑ گیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس سماعت کے دوران وزیراعظم شہباز شریف کو یاد دلایا کہ حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے یہ ان کی آئینی و قانونی ذمہ داری ہے کہ کوئی بھی شہری جبری اغوا نہ ہو۔ وزیرِ اعظم نے دیگر سابق وزرائے اعظم کی طرح عدالت کو یقین دلایا کہ وہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ عدالت نے اس ”یقین دہانی‘‘ کے بعد انہیں جانے کی اجازت دے دی کیونکہ وزیرِ اعظم کو اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیریش کا استقبال بھی کرنا تھا۔
وزیراعظم کی عدالتی یقین دہانی کے تیسرے روز ایم کیو ایم کے طویل عرصے سے لاپتہ کارکن عرفان بصارت کی لاش کراچی سے سینکڑوں کلومیٹر دور سانگھڑ میں ملی۔ پھر دو روز بعد نواب شاہ کی ایک سڑک کے کنارے عابد عباسی اور میرپور خاص کے ایک راستے پر وسیم اختر کی لاش ملی جو بقول اہلِ خانہ پانچ سے سات برس قبل اٹھائے گئے تھے۔ کراچی کے علاقے لیاری کے رہائشی لاپتہ نوجوان سہیل حسن کی لاش عمر کوٹ کے سیلابی پانی سے ملی۔
وزیرِ اعظم کی عدالت کو یقین دہانی کے فوراً بعد چار لاپتہ افراد کی لاشوں کا ملنا عدلیہ اور انتظامیہ کو واضح پیغام تھا کہ قانون کے ہاتھ بھلے لمبے سہی مگر اتنے بھی لمبے نہیں کہ ہم تک پہنچ سکیں۔
نائن الیون کے بعد پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جو تحائف ملے ان میں سیاسی کارکنوں، صحافیوں، اہلِ قلم، مشتبہ مذہبی شدت پسندوں، قوم پرستوں اور علیحدگی پسندوں کو گرفتار کر کے مقدمہ چلانے کے بجائے جبری طور پر غائب یا ہلاک کر دینے کا چلن بھی شامل ہے۔ خود سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنی سوانح ”ان دی لائن آف فائر‘‘ میں واضح طور پر کہا کہ جبری گمشدگی ریاست کی غیر اعلانیہ پالیسی کا حصہ ہے۔
پرویز مشرف کے بعد یکے بعد دیگرے افتخار چوہدری سے عمر عطا بندیال تک سپریم کورٹ کے دس چیف جسٹس اور یوسف رضا گیلانی سے شہباز شریف تک چھ وزرائے اعظم آئے ۔کئی جانچ کمیٹیاں بھی بنیں۔ اعلی ترین عدالت نے لاپتہ افراد اور انہیں لاپتہ کرنے والوں کو متعدد بار طلب بھی کیا۔
اکادکا مواقع پر کچھ افراد اچانک بازیاب کر کے پیش بھی کیے گئے، کچھ کو پولیس کے حوالے کر کے ظاہر کیا گیا کہ انہیں چند دن پہلے گرفتار کیا گیا ہے۔ مگر کسی بھی ذمہ دار کا آج تک سراغ نہیں لگ پایا چہ جائیکہ اسے کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکے ۔سب کہتے ہیں یہ نامعلوم افراد ہیں، خفیہ ادارے ہیں، نیم عسکری اہل کار ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مگر اوپر سے نیچے تک نام کوئی نہیں لیتا۔
چلیے نام نہ لیجیئے ایف آئی آر تو لکھیئے ۔اس بابت صرف ان کی ایف آئی آر کٹتی ہے جن کی حمایت میں سوشل میڈیا یا انسانی حقوق کی سرکردہ تنظیمیں آواز اٹھائیں۔ اکثریت کے اہلِ خانہ کو نامعلوم نمبروں سے فون آتے ہیں کہ خاموشی میں ہی عافیت ہے ورنہ تمہارے پیاروں کی جان خطرے میں ہے۔
مارچ دو ہزار گیارہ میں جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی سربراہی میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ایک کمیشن بنایا گیا۔ اس سال مارچ میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں کمیشن کی جانب سے جو رپورٹ جمع کرائی گئی، اس کے مطابق گزشتہ گیارہ برس میں جبری گمشدگی کے آٹھ ہزار چار سو تریسٹھ کیس کمیشن کے سامنے آئے۔ ان میں سے تین ہزار دو سو چوراسی افراد بازیاب کروا لیے گئے۔
ڈیڑھ ہزار کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ حراستی مراکز یا جیل میں ہیں۔ مگر ان پر کیا فردِ جرم ہے اور انہیں عدالت میں کیوں پیش نہ کیا جا سکا، انہیں گرفتار کس ادارے نے کیا۔ اس بارے میں کمیشن خاموش ہے۔ اسی فہرست میں دو سو اٹھائیس ایسے نام بھی ہیں، جن کی مختلف اوقات اور مقامات سے لاشیں برآمد ہوئیں اور یہ سلسلہ کبھی نہیں رکا۔
لاپتہ افراد میں پندرہ برس پہلے سے کل رات تک گمشدہ ہونے والے افراد شامل ہیں۔ ان کے اہلِ خانہ کراچی، کوئٹہ اور اسلام آباد میں دھرنے دیتے ہیں، بھوک ہڑتال کرتے ہیں، ریلیاں نکالتے ہیں، لانگ مارچ کرتے ہیں، چیف جسٹس سے چیف آف اسٹاف تک ہر اہم شخصیت کو یاداشتیں بھیجتے ہیں۔ ان لاچاروں کے سر پر وزرا اور حکام مشفقانہ ہاتھ رکھتے ہیں۔کبھی کبھی تنگ آ کر انتظامیہ طاقت کا استعمال کر کے منتشر کرنے کی بھی کوشش کرتی ہے۔ عدالتیں ان کی درخواستیں بھی قبول کر لیتی ہیں مگر مسئلہ جوں کا توں ہے۔
اس بابت بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کے نتیجے میں گزشتہ برس جون میں وزارتِ انسانی حقوق کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کردہ ایک بل میں جبری طور پر لاپتہ کرنے کے عمل میں کسی ریاستی ادارے یا اہلکار کے ملوث ہونے کو ایک قابلِ سزا جرم قرار دیا گیا۔ سزا کی مدت دس برس رکھی گئی اور عدالتی صوابدید پر جرمانہ عائد کرنے کی بھی سفارش کی گئی۔
مگر ستمبر میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امورِ داخلہ نے حساس اداروں کے دباؤ پر اسبل میں ایک اور شق کا اضافہ کیا، جس کے مطابق کسی شخص کی گمشدگی کے بارے میں بنا ثبوت شکایت یا غلط اطلاع پر پانچ برس قید اور ایک لاکھ روپے تک جرمانہ عائد ہو سکتا ہے اور پھر یہ بل فوجداری قانون و پینل کوڈ کی متعلقہ شقوں میں ترامیم کے طور پر قومی اسمبلی نے آٹھ نومبر کو منظور کر لیا۔
البتہ جب یہ قانونی مسودہ پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا سینیٹ کی منظوری کے لیے بھیجا گیا تو یہ بل ہی اغوا ہو گیا اور آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ کہاں گیا اور کس نے اغوا کیا۔ غالباً پارلیمانی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی انہونی واردات ہے۔
اگر یہ بل قانون بن بھی جائے تب بھی کوئی گرفت میں نہیں آئے گا۔کیونکہ شکایت کنندہ کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہو گا کہ اس کے باپ یا بھائی کو کس ادارے کے کن کن اہلکاروں نے اغوا کیا۔ جب ہر متعلقہ ادارہ عدالت کے روبرو اپنے ملوث ہونے کی تردید کر دے گا تو اس کے بعد شکایت کنندہ ہی غلط بیانی کے الزام میں جیل جائے گا۔
اس قانونی سقم کی جانب گزشتہ برس دسمبر میں جنیوا میں اقوامِ متحدہ کے ایک انسانی حقوق پینل نے بھی توجہ دلائی اور اس شق کو بل سے نکالنے کا مطالبہ کیا کیونکہ یہ شق اوریجنل بل کا حصہ نہیں تھی۔
اقوامِ متحدہ کے پینل نے سینیٹ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بل پر نظرِ ثانی کرنے کے بعد ہی اسے منظور کرے۔ورنہ کسی بھی لاپتہ شخص کا وارث شکایت لے کر تھانے یا عدالت میں پیش ہونے سے اجتناب برتے گا۔یہ کام شکایت کنندہ کا نہیں حکومت کا ہے کہ وہ حقیقت کا کھوج لگائے۔ مگر پھر وہ بل ہی شق سمیت سینیٹ سیکرٹیریٹ سے لاپتہ ہو گیا۔
پاکستان نے جبری لاپتہ افراد کی بازیابی اور ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانے سے متعلق بین الاقوامی کنونشن مجریہ انیس سو بانوے پر بھی دستخط نہیں کئے۔ ہر سال اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر بھی پاکستان کو کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر کوئی اس نزاکت کو نہیں سمجھتا کہ یہ جرم پاکستان کی سرزمین پر ضرور ہوتا ہے مگر بے بس حکومت یا عدلیہ اس کی براہ راست زمہ دار نہیں۔
لگتا ہے انسان نہیں ہیں کوئی چھلاوہ ہیں
سب دیکھیں پر نظر نہ آئیں نامعلوم افراد
ہم سب ایسے شہرِ ناپرساں کے باسی ہیں
جس کا نظم و نسق چلائیں نامعلوم افراد
(عقیل عباس جعفری )
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔