1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ستاروں اور جگنوؤں کی بارات

8 جنوری 2025

سورج شاید کمبل اوڑھے آکاش کے پلنگ پہ کہیں دبک کر سویا ہوتا تھا۔ دھوپ کی ایک بھی کرن دکھائی نہیں دیتی تھی۔ جاڑے کے موسم میں، ہماری بستی میں یخ بستہ اور دھند آلود صبح پھوٹتی تھی۔

https://p.dw.com/p/4ovud
DW Urdu Blogger Ahmad Naeem
تصویر: privat

نیم کی ٹنڈ منڈ شاخوں سے شبنم کی بوندیں برس رہی ہوتیں۔ ٹپ ٹپ ٹپ۔ ہم آنکھیں ملتے، ٹپ ٹپ برستی اوس سے بچتے بچاتے صحن میں لگے نلکے تک جاتے۔ نلکے کی ہتھی تب تک 'گیڑتے‘ رہتے جب تک کوسا کوسا تازہ پانی نا نکل آتا جس سے بھاپ اٹھتی دکھائی دیتی۔ کلی کرتے، ہاتھ منہ دھوتے۔ ماں اپنے دوپٹے کے پلو سے ہمارے منہ صاف کرتی اور گرم چادر لپیٹ کر ہمارے سر کے پیچھے گانٹھ لگا دیتی۔ ریشمی غلافوں میں لپٹے سپارے اٹھائے، سینے سے لگائے ہم 'تریل‘ کے برستے قطروں کی بوچھاڑ سے گزر کر استاد غلام فرید صاحب کے پاس مسجد میں سپارہ پڑھنے جاتے۔

نیم کے درختوں پر، صحن میں، دیواروں بنیروں پر کوے بیٹھے شور مچا رہے ہوتے۔ کاں، کاں، کاں۔

جیسے جیسے مسجد کے قریب آتے جاتے سبق یاد کرتے بچوں کا شور بڑھتا جاتا۔ کل کا ملا سبق جھوم جھوم کر دہراتے، باری باری سناتے، نیا سبق لیتے، تھوڑی دیر دہراتے اور پھر چھٹی۔

ٹپ ٹپ برستے شبنم کے ٹھنڈے موتیوں کی برسات سے گزر کر سیدھے چولہے کے پاس جا بیٹھتے۔ آنگن میں دیکھو ایسے دھند اتری ہے کہ کچا آنگن سارا گیلا گیلا سا ہو گیا ہے۔ روٹی مانگتی پکھی واس عورت دکھائی ہی نہیں دے رہی، اس کی صرف آواز سنائی دے رہی ہے۔ نیم کے پتے جو کتنے ہرے بھرے سنہری سنہری تھے اب گل سڑ کر زمین پر اوندھے منہ پڑے ہیں۔ نیم کا پیڑ ہاتھ لپیٹے ٹھٹھر رہا ہے۔ گلہری کا گھر جو نیم کی چوٹی پر ہے کتنا سونا اور اداس لگ رہا ہے۔

گلہری نیم کی شاخوں میں بنے بسیرے سے نیچے آنگن میں اتر کر کووں، لالیوں اور چڑیوں کے ساتھ روٹی کے ٹکڑے تلاش کر کے کھا رہے ہوتے۔

توے پہ پراٹھے پک رہے ہوتے۔ گرم توے پہ گھی لگتا تو سوں سوں کی آواز اٹھتی۔ چائے پک چکی ہوتی اور سلور کی دیگچی چولہے کے پاس ہی ادھ موئے انگاروں کی 'کیری‘ پہ رکھی ہوتی۔ کمرہ دھوئیں سے بھرا ہوتا۔ آنکھوں میں دھواں گھستا تو آنکھیں پانی سے لبالب بھر جاتیں۔ دھوئیں سے بچنے کے لیے آنکھیں بند کرتے تو پانی چھلک جاتا۔ کپاس کی سوکھی چھڑیاں توڑ توڑ چولہے میں ڈال رہے ہوتے اور 'پھونکنی‘ سے پھونک مارتے کہ آگ جلے تو دھوئیں سے جان چھوٹے۔

بہن بھائی، ماں باپ سب چولہے کے ارد گرد پٹ سن کی بوری، لکڑی کی پھٹی، پرالی کے موڑھے یا بان کی پیڑھی پہ دائرہ بنائے بیٹھے ہوتے۔ بہن بھائیوں میں تکرار جاری رہتی کہ روٹی لینے کی آج پہلے باری کس کی ہے۔ آگ کی تپش اتنی ہوتی کہ ہم اپنی چادر اتار کے پاس پیڑھی پر رکھ لیتے۔ ایک ایک روٹی سب کو مل جاتی۔ پیالی میں گرم گرم چائے بھر دی جاتی۔ سفید رنگ کی پیالیاں ہوتیں جن پہ سرخ، سبز، نیلے اور سیاہ رنگوں سے پھول بوٹے بنے ہوتے۔ لقمہ چائے میں ڈبو کر کھانے لگتے یا پھر لقمہ منہ میں ڈال کے پیالی سے چائے کی ایک ننھی سا چسکی لے لیتے۔ چائے کی پیالی سے اٹھتی بھاپ گال، ناک، ماتھے کو بھی ہلکی ہلکی حدت بخش دیتی۔

پراٹھے کے ساتھ رات کا بچا ہوا سالن بھی کبھی مل جاتا۔ جب انڈا آملیٹ بنتا تو ہمارے وارے نیارے ہو جاتے۔ بھینس اگر دودھ دیتی تو دہی بھی ہوتا تھا جس میں چینی گھولنے کے لیے کتنی ہی دیر چمچ گھماتے رہتے۔ 

کپاس کی سوکھی چھڑیوں سے اٹھتے سنہری سنہری، بل کھاتے لہراتے ہوئے شعلوں کے ارد گرد، دھوئیں سے کالی ہوتی چھت کے نیچے، دھوئیں کے بادلوں میں بیٹھے، بھیگی بھیگی پلکیں جھپکتے جب ہم چائے میں ڈبو کر پراٹھے کا ایک لقمہ کھاتے تھے تو جیون سرسوں کے پیلے پھولوں کی طرح کھل کھل جاتا تھا۔ 

نیم کی ننگ دھڑنگ شاخوں سے ٹھنڈے ٹھار قطرے اسی رفتار سے ٹپک رہے ہوتے۔ ٹپ، ٹپ، ٹپ۔

دوپہر کو ہم گھی شکر، چینی، ساگ، دھنئیے مرچ کی چٹنی وغیرہ جو ملتا اس سے کھانا کھا لیتے۔ سرسوں کی گندلیں، سبز مرچیں اور پالک کے پتے باریک کاٹ کر دیگچا بھر لیا جاتا۔ تیز آگ پر کافی دیر پکتا رہتا۔ پھر 'مدھیے‘ سے اس کو مزید پیسا جاتا۔ اس میں گھی مکھن ملا کر کھاتے رہتے۔ واہ ! کیا مزے کی ڈش ہوتی تھی ساگ بھی۔ سردیوں میں ہفتوں چلتا رہتا تھا۔

شدید دھند کے دنوں میں سارا سارا دن دھند چھائی رہتی۔ سورج کی کرنیں دھند کے بادلوں سے پرے ہی کہیں پھنس جاتیں۔  انسان، چرند پرند سب دھوپ کو ترس جاتے۔ جگہ جگہ لوگ آگ کے الاو جلا کر تاپتے رہتے۔ دھواں اٹھتا رہتا، چہرے دہکتے رہتے، گپ شپ چلتی رہتی، حقہ پینے والے حقے کی بڑ بڑ کرتے رہتے۔ کیکر، ٹاہلی، بکائن، نیم، شہتوت، پیپل، گوندنی، لسوڑی اور برنے کے پیڑوں کی شاخوں سے پانی کے قطرے لگاتار چھم چھم برستے رہتے۔

دھوپ نکلتی تو مرجھائے چہروں کی کلیاں چٹخ کے پھول بن جاتیں۔ لوگ دھوپ کے ٹکڑوں میں لوئیاں اوڑھے بیٹھ جاتے۔ مائیں ان بچوں کو پکڑ پکڑ کر نہلا دیتیں جو کئی دنوں سے نہانے سے جی کترا رہے تھے۔ میل مٹی سے اٹے بدن دھل جاتے۔ سورج نے جو دھوپ ہمارے گاؤں میں بھیجی ہوتی وہ بھی بدن میں سما جاتی۔ لوگوں کے رنگ گندم کے سنہری خوشوں ایسے ہو جاتے۔ کھیتوں میں سرسوں کے پھول دہکنے لگتے۔ شہد کی مکھیاں پتی پتی منڈلانے لگتیں۔ پرندے زیادہ اڑنے اور چہچہانے لگتے۔

 مسجد کے اسپیکر سے مولوی اکرم جب عصر کی اذان بلند کرتا تو پھر سے دھند چھانے لگتی۔ پورا گاؤں دھند کی چادر لپیٹ لیتا۔ 

کوے دور بانسوں کے پیڑوں کی طرف رات بسر کرنے کے لیے ٹولیوں میں واپس جانے لگتے۔ گلہری پیٹ بھر کر نیم کی چوٹی پر روئی اور رنگ برنگے چیتھڑوں کے بنے گھر میں دبک کر لیٹ جاتے۔ ہم سب پھر سے چولہے کے گرد شام کے کھانے کے لیے بیٹھ جاتے۔

سالن کی دیگچی چولہے کے پاس گرم راکھ پہ پڑی ہوتی۔ چولہے میں جلتی آگ سب کی آنکھوں سے منعکس ہو رہی ہوتی۔ سرمئی آنکھوں میں ننھے ننھے سنہری الاو جل رہے ہوتے۔ چہرے روشنی میں تانبے رنگ کے ہو جاتے۔ ابو موٹے موٹے انگارے الگ کر کے حقے کا 'پھل‘ بھر لیتے۔ جب روٹیاں سب پک جاتیں تو امی توے کو چولہے سے اتار کر دیوار کے ساتھ الٹا کھڑا کر دیتیں۔ چولہے سے ایک جلتی لکڑی اٹھا کر دہکتے کونے سے توے کے پچھلے حصے کو ٹھوکر لگاتیں۔ توے کی دھت کالی پشت پر بہت ساری ننھی ننھی چنگاریاں سی جلنے لگتیں۔ اور وہ توے کی سطح پر آگے چلتی چلی جاتیں۔ ہمیں یوں لگتا تھا جیسے سیاہ رات میں سبھی ستارے مل کر کہیں میلا دیکھنے چل پڑے ہوں۔ جیسے جگنوؤں کا پورا گاؤں دوسرے گاؤں کسی شادی کے لیے سج دھج کے جا رہا ہو۔ جیسے شب برات کو پورے گاوں کی دیواروں، بنیروں اور چھتوں پر موم بتیاں جل رہی ہوں۔ امی کہتی تھیں کہ یہ 'جنج‘ جا رہی ہے۔ کبھی ایک بھائی کی، کبھی دوسرے کی۔

دھوئیں کی تہوں سے اٹے سیاہ توے پر تاروں کی بارات دیکھ کر ہم بچے کتنے خوش ہوتے تھے! لگتا تھا ان تاروں کے جمگھٹے میں، ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، اچھلتے کودتے ہم بھی کہیں ساتھ فلک پہ چلے جا رہے ہیں۔ ہم بھی جگمگاتے جگنووں کے ہم راہی ہو جاتے۔

توے کے کناروں پر جا کر بارات ایک دم ختم ہو جاتی تھی۔ چند سیکنڈز میں۔ لیکن بچوں کے جہاں ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک روشن ہو جاتے تھے۔ گھپ اندھیری رات میں ٹمٹماتے ستاروں سے بھی زیادہ من میں پھلجھڑیاں جلنے لگتی تھیں۔ بچپن کے ان دنوں اور آج کے درمیان کتنی ہی دھند آلود، ٹھٹھرتی صبحیں یا دھوپ میں جلتی دوپہریں گزر گئی ہیں۔

پالے اور جاڑے کا موسم اب بھی گاؤں میں باقاعدگی سے اترتا ہے۔ دھند اب بھی دھوپ کا راستہ روک کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ سرسوں کے پھول اب بھی کھیتوں میں کھلتے ہیں۔ لیکن اب استاد غلام فرید بچوں کو سیپارہ نہیں پڑھاتے۔ نیم کی جن شاخوں، ٹہنیوں سے اوس کے قطرے برسا کرتے تھے وہ شاخیں کب کی ٹوٹ چکی ہیں۔ گلہریوں نے گھر نہ جانے اب کس پیڑ پر جا کر بنا لیا ہے۔ ہمارے کھیتوں میں اب کپاس نہیں اگتی۔ چائے میں ڈبو کر پراٹھا کھائیں بھی تو وہ مزہ نہیں آتا جو ان جاڑوں میں تھا۔ پٹ سن کی بوری پر آلتی پالتی مار کر پہلی روٹی کھانے کو بہت من کرتا ہے۔ آنگن کے کونے میں دوپہر کو دھوپ کا ایک ٹکڑا اوڑھ کر سونے کو بھی دل چاہتا ہے۔

ایک عمر بیت گئی، زمانہ ہوا تاروں کی بارات نہیں دیکھی۔ رب جانے توے کی پشت پر ہنستے کھیلتے تارے کہاں ڈوب کر مر گئے۔ دوسرے گاؤں کو گئےجگنو پلٹ کر نہیں آئے۔ اندھیری رات میں کہیں راستہ بھٹک گئے۔ گاوں کے کچے گھروں کے بنیروں پہ جگمگاتی موم بتیاں ہوا کے ہلکے سے جھونکے سے بجھ گئیں۔

یہ سب لکھتے ہوئے میری پلکیں کیوں بھیگ گئی ہیں؟ یادوں کے کچن میں دھواں بھرنے سے شاید انکھیں دکھ رہی ہیں۔  تاروں کی بارات کتنی جلدی ختم ہو گئی۔ اب ایک بھی ستارہ نظر نہیں آ رہا۔

اور نیم کی شاخوں سے شبنم کے موتی برسنے کی آواز نا جانے کہاں سے آ رہی ہے۔ ٹپ، ٹپ، ٹپ۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

DW Urdu Blogger Ahmad Naeem
احمد نعیم چشتی انگریزی ادب کے استاد ہیں۔ اپنے علاقے میں بزرگوں کی 1947ء کی یادیں اکٹھی کرنے میں دلچسپپی رکھتے ہیں۔