ستمبر میں 22 ڈرون حملے، 194 افراد ہلاک
1 اکتوبر 2010اس دوران 22 حملوں میں 194 افراد ہلاک ہوئے، جن میں القاعدہ کے اہم رہنما شیخ فاتح اورطالبان کمانڈر سیف اللہ اورشمس الحق بھی شامل تھے۔ شمالی وزیرستان کو القاعدہ اور طالبان کامرکز سمجھا جاتاہے، جہاں افغان کمانڈر جلال الدین حقانی کانیٹ ورک موجود ہے۔ امریکی اور اتحادی افواج کے مطابق وہ شمالی وزیرستان میں تیاری کر کے افغانستان میں موجود امریکی اور اتحادی افواج پرحملے کرتے ہیں۔
حقانی نیٹ ورک کے علاوہ اس علاقے میں حافظ گل بہادر گروپ کا مرکز بھی موجود ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ امریکی جاسوس طیاروں کے مبینہ حملوں میں اضافے سے پاکستان اور بالخصوص صوبہ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی آ جاتی ہے۔ تاہم کبھی کبھی ان حملوں کا ردعمل پختونخوا میں سامنے آتا ہے۔
ڈرون حملوں کے بارے میں پاکستانی سیاستدان دوحصوں میں تقسیم ہیں۔ ایک گروپ اسے پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کے خلاف سمجھتا ہے جبکہ دوسرے گروپ سے تعلق رکھنے والےحلقے ان حملوں کو ان عسکریت پسندوں کے خلاف ”اچھا اقدام “سمجھتے ہیں، جو بےگناہ افراد کو خودکش حملوں اور بم دھماکوں میں موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات میاں افتخارحسین کا کہنا ہے: ”اصولی طور پر ہم ڈرون حملوں کے مخالف ہیں۔ لیکن دہشت گردی کے خاتمے کے لئے جو بھی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں، ان کے نتیجے میں دہشت گردی کاخاتمہ ہو تو یہ پوری دنیا، انسانیت اور ہماری دھرتی کے لئے بھی مفید ہے۔“ افغانستان میں موجود امریکی اور اتحادی افواج کی جانب سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کاسلسلہ 2004ء میں شروع ہوا۔ اس سال کے واحد حملے میں طالبان کمانڈر نیک محمد وزیر ہلاک ہوئے۔ اس کی کامیابی دیکھ کر 2005ء میں دو حملے کئے گئے، جن میں سات افراد ہلاک ہوئے تھے۔
پھر 2006ء میں دو حملوں میں 23، دو ہزار سات کے چار حملوں میں 74 اور دو ہزار آٹھ کے 33 حملوں میں 296افراد مارے گئے۔ 2009ء میں ان حملوں کی تعداد 53 رہی اور ان میں ہلاک شدگان کی تعداد 709۔ سال رواں کے ماہ ستمبر تک 76 حملے کئے گئے اور ان حملوں میں 1788 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بعض حملوں میں بیک وقت کئی میزائل داغے جاتے ہیں، جن سے بڑی تباہی ہوتی ہے۔
قبائلی علاقوں میں موجود امریکہ مخالف قوتوں کے خلاف کارروائیوں میں اب ہیلی کاپٹروں کے ذریعے پاکستان کی فضائی حدودکے اندر آ کر کی جانے والی بمباری بھی شامل ہوگئی ہے۔ ستمبر کے دوران نیٹو ہیلی کاپٹر چار مرتبہ پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے اندر حملوں کے مرتکب ہوئے، جن میں تین سکیورٹی اہلکاروں سمیت 42افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔
پاکستان نے افغانستان میں موجود فورسز کی اس کارروائی پر احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے جس مینڈیٹ کے تحت نیٹو فورسز کو افغانستان میں تعینات کیا گیا ہے، یہ فورسز اس کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہیں۔
پاکستانی حکام کےمطابق نیٹو فورسز کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا جس کے تحت افغانستان سے فرار ہو کر آنے والے اہم افراد کا تعاقب کرتے ہوئے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی جائے۔
اس احتجاج کے ساتھ ہی پاکستان نے افغانستان میں نیٹو فورسز کے لئے تیل اور سامان رسد لے جانے والے ٹینکرز، ٹرکوں اورکنٹینرز کو روک دیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ کنٹینرز سکیورٹی خدشات کے باعث طورخم کی پاک افغان سرحد پر روکے گئے ہیں۔
رپورٹ: فرید اللہ خان، پشاور
ادارت: عصمت جبیں