’سر پرست قتل بھی ہوا اور مقدمہ اُسی کے اہل خانہ کے خلاف‘
16 جولائی 2016بھارتی پولیس کے ایک افسر دلجیت سنگھ نے بتایا کہ محمد اخلاق کے اہل خانہ کے خلاف گائے ذبح کرنے کا مقدمہ عدالت کے حکم پر درج کیا گیا ہے۔ ان کے بقول مقتول اخلاق کے پڑوسیوں نے اس سلسلے میں شکایت کی تھی۔ عدالت میں ایک ایسی فورینسک رپورٹ پیش کی گئی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ محمد اخلاق کے گھر کے باہر رکھے ہوئے کوڑے دان سے جو گوشت ملا تھا، وہ گائے یا اسی نسل کے کسی دوسرے جانور کا تھا۔ محمد اخلاق کے وکیل یوسف سیفی نے اعلان کیا ہے کہ وہ عدالت کے اس حکم نامے کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔ ان کے بقول ابھی تک اس سلسلے میں کوئی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔
بتایا گیا ہے کہ عدالت میں آج کل اخلاق کے پڑوسیوں کی جانب سے دائر کی جانے والی شکایت کی سماعت جاری ہے اور اس پٹیشن کو ان افراد کی بھی حمایت حاصل ہے، جن پر محمد اخلاق کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ ان کا موقف ہے کہ مقتول نے ایک بچھڑے کو ہلاک کیا اور اخلاق کے بھائی جان محمد نے اس جانور کے گلے پر چھری پھیری۔ اس پٹیشن میں اخلاق کی بیوہ سمیت ان کے خاندان کے ساتھ افراد کا نام شامل ہے۔
بھارتی ریاست اتر پردیش میں گائے کا گوشت کھانا کوئی جرم نہیں ہے تاہم گائے کو ذبح کرنے پر سات سال کی قید ہو سکتی ہے۔ اسی طرح بھارت کی کئی ریاستوں میں بھارت کو ذبح کرنے پر کئی سالوں سے پابندی عائد ہے۔ تاہم سخت گیر موقف رکھنے والی ہندو تنظیمیں ملک بھر میں اس پابندی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ بھارت کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کی جانب سے گائے کو ذبح کرنے کی افواہوں پر مشتعل مظاہرے ہو چکے ہیں۔ اکتوبر میں شملہ کے علاقے میں گائے کے غیر قانونی کاروبار سے متعلق ایک افواہ کے رد عمل میں ہجوم نے ایک شخص کو قتل اور چار کو شدید زخمی کیا تھا۔
گزشتہ برس ستمبر میں محمد اخلاق کے قتل کے بعد بھارت میں مذہبی عدم رواداری کے موضوع پر شدید بحث شروع ہوئی تھی۔ اس واقعے کے بعد اخلاق کا خاندان اپنا گاؤں چھوڑ کر نئی دہلی میں آ کر آباد ہو گیا ہے۔