سربیا کے خلاف نیٹو کی فوجی کارروائی کے بیس برس
سربیا کے خلاف نیٹو کی فوجی کارروائی اقوام متحدہ کی باقاعدہ اجازت کے بغیر چوبیس مارچ سن 1999 کو شروع ہوئی تھی۔ اس عسکری مشن سے سرب فوج کے کوسووو کی البانوی نژاد آبادی پر حملے کنٹرول کیے گئے تھے۔
کوسووو کے تنازعے کے ابتدائی اشارے
کوسوو کے تنازعے کی صورت حال سن 1990 کی دہائی میں خراب سے خراب تر ہوتی گئی۔ امن کی تمام کوششیں ناکامی سے دوچار ہونے کے بعد چوبیس مارچ سن1999 کو مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے سرب فوج کے خلاف اپنے فضائی حملوں آغاز کر دیا۔ یہ حملے گیارہ ہفتوں تک جاری رہے۔
غیر متشدد مزاحمتی تحریک کی ناکامی
سن 1980 کی دہائی میں بلغراد حکومت کی طرف سے البانوی نسلی اقلیت کے ثقافتی حقوق کے تحفظ میں ناکامی کے بعد کوسووو کے عوام نے مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ کوسووو کے رہنما ابراہیم روگووا کی یہ سیاسی کوشش اس لیے ناکام ہوئی کہ سرب رہنما سلوبوڈان میلوشیووچ اپنی سوچ میں تبدیلی پر تیار نہیں تھے۔
مسلح گوریلا جنگ
حالات پرتشدد ہونے کے بعد کوسووو لبریشن آرمی نے ایک مسلح گوریلا جنگ شروع کر دی۔ اس نے سرب آبادی کے ساتھ ساتھ البانوی نژاد افراد کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ سرب دستوں نے ان دہشت گردانہ حملوں کے جواب میں اس نسلی اقلیت کی ملکیت گھروں اور دکانوں کو نذرآتش کرنا شروع کر دیا۔ ہزار ہا لوگوں جانیں بچاتے ہوئے نقل مکانی پر مجبور ہو گئے تھے۔
منظم بے دخلی
سربیا کی جنگ شدید تر ہوتی گئی اور اس دوران کوسووو لبریشن آرمی کی طرف سے سخت مزاحمت کے تناظر میں سرب فوجوں نے عام شہریوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ ہزارہا ’کوسووار‘ باشندوں کو ریل گاڑیوں اور ٹرکوں کے ذریعے سرحدی علاقوں کی جانب منتقل کر دیا گیا۔ ان کی اکثریت کے پاس اپنی شناختی دستاویزات تک نہیں تھیں۔
مذاکرات کی آخری کوشش بھی ناکام
امریکا، فرانس، جرمنی، برطانیہ اور روس نے اس تنازعے کے فریقین کو فروری سن 1999 میں پیرس کے نواحی علاقے ریمبولے میں منعقدہ ایک کانفرنس میں مدعو کیا تاکہ کوسووو کے لیے عبوری خودمختاری کا سمجھوتہ طے پا سکے۔ کوسووو نے اس ڈیل پر رضامندی ظاہر کر دی لیکن سربیا نے کوئی رعایت دینے سے انکار کر دیا تو یہ مذاکرات بھی ناکام ہو گئے۔
’انسانیت کے نام پر فوجی مداخلت‘
چوبیس مارچ سن 1999 کو نیٹو نے سربیا کے فوجی اور اسٹریٹیجک مقامات کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا تا کہ کوسووو کی البانوی نژاد آبادی کو پرتشدد حملوں سے بچایا جا سکے۔ جرمنی بھی ان حملوں میں شریک تھا۔ مغربی دفاعی اتحاد کی قیام کے بعد کے پچاس برسوں کی تاریخ میں یہ نیٹو کی پہلی جنگ کارروائی تھی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس کی حمایت نہیں کی تھی اور روس نے نیٹو کی اس کارروائی کی شدید مذمت کی۔
بنیادی ڈھانچے کی تباہی
نیٹو کے جنگی طیاروں نے مسلسل اناسی دنوں تک سینتیس ہزار فضائی مشن مکمل کیے۔ سربیا کے اہم مقامات کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اس دوران رسد کے راستے ختم کرنے کے لیے بے شمار پل اور ریلوے ٹریک تباہ کر دیے گئے۔ سربیا پر بمباری کے علاوہ دو ہزار راکٹ بھی داغے گئے، جس دوران بہت سے عام شہری بھی مارے گئے۔
پانچیوو کے اوپر زہریلے بادل
بلغراد کے قریبی شہر پانچیوو کی کیمیائی کھاد بنانے والی ایک فیکٹری پر بھی نیٹو کے جنگی طیاروں نے بم برسائے۔ اس حملے کے بعد اس فرٹیلائزر فیکٹری سے انتہائی مضر کیمیائی مادہ دھوئیں کی صورت میں پانچیوو کی فضا میں پھیل گیا۔ سربیا نے نیٹو پر الزام لگایا کہ اس حملے میں کلسٹر بموں کے ساتھ ساتھ افزودہ یورینیم والے ہتھیار بھی استعمال کیے گئے۔
جنگی پراپیگنڈے کے خلاف بھی جنگ
سربیا کے رہنما سلوبوڈان میلوشیووچ کے پراپیگنڈے کو روکنے کے لیے نیٹو کے جنگی طیاروں کو بلغراد کے ٹیلی وژن اسٹیشن کو بھی نشانہ بنانا پڑا۔ اس حملے سے قبل سربیا کی حکومت کو مطلع بھی کر دیا گیا تھا۔ اس حملے میں سولہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
غلط اہداف پر بمباری
نیٹو کی بمباری کے دوران ایک مرتبہ البانوی نژاد مہاجرین کا ایک قافلہ بھی نشانہ بن گیا تھا، جس میں اسی افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اسی طرح بلغراد میں چینی سفارت خانے پر بھی غلطی سے بم گرنے سے چار افراد کی موت ہوئی۔ اس واقعے کے بعد بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان ایک شدید سفارتی تنازعہ بھی پیدا ہو گیا تھا۔
المناک میزانیہ
سلوبوڈان میلوشیووچ کی طرف سے ہتھیار پھینکنے کے ابتدائی پیغام سے ہی خوف و ہراس کے سلسلے میں کمی پیدا ہونے لگی تھی۔ نیٹو نے انیس جون سن 1999 سے بمباری بند کرنے کا عندیہ دے دیا۔ اس جنگ میں ہزاروں افراد ہلاک اور ساڑھے آٹھ لاکھ سے زائد افراد بےگھر ہو گئے تھے۔ سرب معیشت زوال پذیر تھی اور بیشتر انتظامی ڈھانچے تباہ ہو گئے تھے۔ پھر کوسووو کو اقوام متحدہ کی نگرانی میں دے دیا گیا۔