سرحد پار شیلنگ سے پاک افغان تعلقات خطرے میں
11 اپریل 2013سرحد پار شیلنگ کے واقعات کے تازہ سلسلے کا آغاز سال 2003ء کے وسط میں ہوا تھا جب افغانستان کے سرحدی صوبے خوست میں میزائل گرے اور اس سلسلے کا تازہ واقعہ گزشتہ ماہ افغانستان صوبے کُنڑ میں پیش آیا۔ کابل حکومت کا الزام ہے کہ پاکستانی فوج یہ گولہ باری کر رہی ہے اور اس کی زد میں آ کر درجنوں عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس قسم کے واقعات میں گزشتہ دو برسوں کے دوران بالخصوص شدت آئی ہے جب سے افغانستان کے صوبوں نورستان، کُنڑ اور ننگرہار کے باسی مسلسل پاکستانی فوج کی طرف سے شیلنگ کی شکایات کر رہے ہیں۔ افغان پارلیمان میں ان صوبوں کے نمائندے کابل حکومت سے جوابی کارروائی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ افغان حکومت ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم نہیں کرتی۔ افغان فوج کے اعلیٰ کمانڈر جنرل شیر محمد کریمی یہ کہہ چکے ہیں کہ اس ’لائن کے دوسری جانب بھی افغان‘ بستے ہیں، اسی لیے ان پر شیلنگ نہیں کی جائے گی۔ تاہم میڈیا رپورٹوں میں ایسی اطلاعات رہی ہیں کہ افغانستان کی جانب سے بھی جوابی شیلنگ کی گئی ہے۔ کابل حکومت کا الزام ہے کہ پاکستانی فوج نے افغان علاقے میں مداخلت کی بھی کوشش کی ہے۔
ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو میں سفارتی امور کے ماہر رستم شاہ مومند نے کہا کہ فی الحال دونوں ملکوں کی حکومتیں ایک عبوری دور سے گز رہی ہیں، اسی لیے ان سرحدی تنازعات کی جانب توجہ کم ہے۔کابل میں پاکستان کے سفیر رہ چکنے والے رستم شاہ مومند کہتے ہیں کہ تلعقات میں حالیہ کشیدگی کی وجہ دراصل سیاسی فراست کی کمی اور غلط فہمیاں ہیں جن کے باعث فیلڈ کمانڈروں کو زیادہ اختیارات ملے ہوئے ہیں۔ ’’جب تک دونوں ملک امریکا کے اہم اتحادی رہتے ہیں، امریکا اس بات کو یقینی بنائے رکھے گا کہ ان دونوں کے تعلقات اس قدر نہ بگڑیں کہ ان سے خطے میں امریکا کے مفادات کو نقصان پہنچے‘‘۔
ان کے بقول مسئلے کا دیرپا حل یہ ہے کہ تمام غیر ملکی فوجی افغانستان سے چلے جائیں اور جب تک غیر ملکی فوجی افغانستان میں رہیں گے، بدامنی کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا۔ ’’امریکا کا 15 ہزار فوجی 2014ء کے بعد بھی 2024ء تک افغانستان میں رکھنے کے حوالے سے کابل حکومت کے ساتھ اسٹریٹیجک معاہدہ موجود ہے، ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا 2014ء میں سارے فوجی نکلیں گے یا نہیں۔‘‘
رستم شاہ مومند افغانستان کو غیر مستحکم کرنے کے حوالے سے پاکستان پر لگنے والے الزامات کو مسترد کرتے ہیں، ’’افغانستان میں اگر ادارے زوال پذیر ہونا شروع ہوتے ہیں یا لوگوں کی جانوں کو خطرہ ہوا، تو وہ وسطی ایشیا یا ایران کا رخ نہیں کریں گے بلکہ پاکستان ہی کا رخ کریں گے، افغانستان کے غیر مستحکم ہونے سے خود پاکستان کو نقصان ہے۔‘‘
یہ سوال جب تجربہ کار صحافی رحیم اللہ یوسف زئی کے سامنے رکھا گیا کہ آخر ان واقعات کا بنیادی سبب کیا ہے، تو انہوں نے کہا کہ یہ طویل عرصے سے موجود اعتماد کے فقدان کی پیداوار ہیں۔ یوسف زئی نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ گزشتہ تین دہائیوں سے افغانستان میں پاکستان کی involvement اور پھر پاکستان میں قیام سے متعلق افغان مہاجرین کی بہت ساری تلخ یادیں وابستہ ہیں۔
افغان صوبوں پر ہونے والی شیلنگ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’یہ واقعات اچانک نہیں ہو رہے، کابل حکومت کو یقین ہے کہ اسلام آباد حکومت افغان امن عمل کے حوالے سے بدنیتی سے کام لے رہی ہے ا ور ایک خاص ایجنڈے پر کام کر رہی ہے، اسی طرح اسلام آباد کو شبہ ہے کہ کابل حکومت قبائلی علاقے اور بلوچستان میں بد امنی کو ہوا دے رہی ہے، کابل اور نئی دہلی کے قریبی تعلقات پر بھی اسلام آباد کو شبہ ہے‘‘۔
یوسف زئی کہتے ہیں کہ 2014ء کے آخر میں نیٹو فورسز کے انخلاء سے پہلے دونوں ملکوں کے پاس وقت ہے کہ آپس میں بہتر تعلقات استوار کر لیں، ’’کچھ مخصوص نکات پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا، بالخصوص امن عمل کے حوالے سے، ابھے کوئی روڈ میپ دکھائی نہیں دیتا، امریکا کے پاس بھی واضح روڈ میپ نہیں، اگر واشنگٹن کے پاس روڈ میپ ہو تو کابل اور اسلام آباد بھی اس پر عمل پیرا ہوں گے، دونوں ایک دوسرے کے ایجنڈے سے لاعلم ہیں‘‘۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان پڑوسی ملک ہیں اور اگر یہ دونوں ممالک اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں تو اس میں دونوں ہی کا فائدہ ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: مقبول ملک