چین کے ساتھ رشتے نارمل ہیں اور نہ ہو سکتے ہیں، بھارت
13 اگست 2022بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا کہنا ہے کہ اگر چین سرحدی علاقوں میں امن و سکون کو خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے تو بھارت اور چین کے درمیان پہلے سے کشیدہ تعلقات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ بات جنوبی شہر بنگلور میں میڈیا کے ساتھ بات چیت کے دوران کہی۔
بھارتی خبر رساں اداروں کے مطابق ایس جے شنکر سے جب بھارت اور چین کے تعلقات کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا، ’’ہمارے تعلقات نارمل نہیں ہیں اور یہ نارمل ہو بھی نہیں ہو سکتے کیونکہ سرحد پر صورتحال نارمل نہیں ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہمارا اپنا موقف برقرار ہے کہ اگر چین سرحدی علاقوں میں امن و سکون کو خراب کرتا ہے تو اس سے ہمارے تعلقات مزید متاثر ہوں گے۔ ہمارے تعلقات تو پہلے سے ہی نارمل نہیں ہیں۔‘‘
بھارتی وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ سب سے بڑا مسئلہ سرحدی صورتحال ہے اور بھاتی فوج زمین پر اپنے قدم جمائے ہوئے ہے۔ تاہم انہوں نے کہا، ’’ہم نے بعض ان جگہوں سے پیچھے ہٹنے میں کافی پیش رفت بھی کی ہے جہاں ہم، ایکچوؤل لائن آف کنٹرول کے بہت قریب تھے۔‘‘
سی پیک پر اعتراض
اس موقع پر بھارتی وزیر خارجہ نے ایک بار پھر سے چین اور پاکستان کے درمیان زیر تعمیر اقتصادی راہداری کا بھی ذکر کیا اور اس کی تعمیر پر بھارتی اعتراض کا اعادہ کیا۔
ان کا کہنا تھا، ’’یہ ہماری علاقائی سالمیت اور خود مختاری کی خلاف ورزی ہوئی۔ یہ تو ایک حقیقت ہے کہ ایک تیسرا ملک کسی دوسرے ملک کے زیر قبضہ بھارتی سرزمین پر کام کر رہا ہے۔‘‘
بھارت کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا علاقہ بھی اسی کا حصہ ہے اور اسی حوالے سے وہ سی پیک منصوبے پر مسلسل تنقید کرتا رہا ہے۔ بھارت پہلے ہی سے اس پروجیکٹ پر اعتراض کرتا تھا، تاہم حال ہی میں چین اور پاکستان کی جانب سے دیگر ممالک کو بھی اس پروجیکٹ میں سرمایہ کرنے کی دعوت دینے سے، وہ کافی برہم ہے۔
گزشتہ ماہ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے اس پر ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کے تحت تمام سرگرمیاں 'فطری طور پر غیر قانونی، ناجائز اور ناقابل قبول‘ ہیں اور اس معاملے میں بھارت کا رویہ اسی انداز کا ہو گا۔
وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا، ''ہم نے نام نہاد سی پیک منصوبوں میں تیسرے ممالک کی مجوزہ شرکت کی حوصلہ افزائی سے متعلق رپورٹیں دیکھی ہیں۔ کسی بھی فریق کی جانب سے ایسی کوئی بھی کارروائی بھارت کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔‘‘
دیگر ممالک کو شمولیت کی دعوت
جولائی کے مہینے میں چین اور پاکستان کی اقتصادی راہداری سے متعلق جوائنٹ ورکنگ گروپ (جے ڈبلیو جی) کی تیسری میٹنگ کے بعد ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ باہمی فائدہ مند تعاون کے لیے کھولے گئے راستوں سے فائدہ اٹھانے میں دلچسپی رکھنے والے تیسرے فریقوں کا بھی اس پروجیکٹ میں خیر مقدم ہے۔
اس حوالے سے پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا، ''ایک کھلے اور جامع پلیٹ فارم کے طور پر دونوں فریقوں نے سی پیک کے ذریعے کھولے گئے باہمی فائدہ مند تعاون کے مواقع سے فائدہ اٹھانے میں دلچسپی رکھنے والے تیسرے فریق کا خیر مقدم کیا ہے۔‘‘
چین اور پاکستان کے درمیان یہ اقتصادی راہداری نقل وحمل اور توانائی کے مختلف منصوبوں کا ایک مجموعہ ہے، جو پاکستان میں گوادر سے چینی علاقے سنکیانگ میں کاشغر تک ایک راہداری پر مرکوز ہے۔
بھارت اس کی مخالفت اس لیے کرتا ہے کہ مجوزہ اقتصادی راہداری پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے بھی گزرتی ہے۔ خطہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے، جس کے ایک بڑے حصے پر بھارت کا کنٹرول ہے جبکہ اس کا ایک حصہ پاکستان کے زیر انتظام ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان یہ ایک دیرینہ تنازعہ ہے جبکہ کشمیر کی آبادی کا ایک حصہ اس خطے میں ایک علیحدہ آزاد ریاست کے قیام کا حامی بھی ہے۔