1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سرطان کا باعث بننے والے جینیاتی کوڈ کی دریافت

17 دسمبر 2009

سائنسدانوں کی ایک بڑی ٹیم نے پھیپھڑے اور جلد کے ناقابل علاج سرطان کا باعث بننے والے جینیات کے اسرار کوکھول لیا ہے۔ یہ کینسر کی انتہائی عام اقسام بتائی جاتی ہیں۔ اب اس نئی تحقیق سے سرطان کا شافی علاج ممکن ہو سکے گا۔

https://p.dw.com/p/L46d
جلد میں پیدا ہونے والے کینسر کے نشانتصویر: AP

کینسر کے علاج پر تحقیق کرنے والی سائنسدانوں کی ٹیم کا مشترکہ خیال ہے کہ سرطانی خلیوں کی جینیاتی حقیقت جاننے کے بعد اب انسانی بدن میں سرطانی گلٹی کا پتہ چلانے میں انتہائی آسانی اور خون کے درست ٹیسٹ میں بھرپور معلومات دستیاب ہو سکیں گی جو انجام کار علاج میں ممدو معاون ثابت ہوں گی۔ اب کینسر جینیاتی آرڈر کی منتقلی کے بعد اِن کی مناسب انداز میں ترتیب کو مکمل کیا جا رہا ہے تاکہ کلینکل ٹیسٹ کے دوران خون میں ملنے والے مختلف عناصر کو آسانی کے ساتھ علیحدہ کیا جا سکے گا کہ کونسا کینسر انسانی جسم میں پیدا ہونے والا ہے۔ یہ عمل کیٹلاگنگ کہلاتا ہے۔ اِس دریافت سے ایسی ادویات تیار کی جا سکیں گی جن کے استعمال سے کینسر زدہ خلیئے مکمل طور پر انسانی بدن میں ختم کئے جا سکیں گے۔

Cancer Diseases Hospital Zambia 2
کینسر میں مبتلا مریضتصویر: A.Leuker, IAEA

دنیا کے کئی ملکوں میں ایک ساتھ اِس سلسلے میں ریسرچ کو مکمل کرنے کا عمل زور شور سے جاری ہے۔ مختلف ملکوں میں مختلف اقسام کے کینسر پر ریسرچ جاری ہے لیکن یہ تمام تحقیقی عمل آپس میں مربوط ہے۔ مثلا برطانیہ میں سائنسدان چھاتی کے سرطان یا بریسٹ کینسر کی ریسرچ کو جاری رکھے ہوئے ہیں، جاپان میں جگر کے سرطان پر ریسرچر پوری توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں جبکہ بھارتی سائنسدانوں کا محور منہ کا کینسر ہے۔ اسی طرح چین انسانی معدے کے سرطان پر ریسرچ کے سلسلے کو عالمی کوششوں کے ساتھ جوڑے ہوئے ہے۔ ادھر امریکہ میں طبی سائنسدانوں کی ٹیم دماغ ، پینکریاز یا لبلبہ کے علاوہ خواتین کی بچہ دانی یا اووری کے اندر پیدا ہونے والے سرطان پر کام کر رہی ہے۔

کینسر پر ریسرچ کرنے والے بین الاقوامی ٹرسٹ ویلکم ٹرسٹ کے سائنسدان پروفیسر مائیکل سٹراٹن کا کہنا ہے کہ سرطان کے جینیاتی کوڈ کی ترتیب مکمل ہونے کے بعد انفرادی کینسر کے بارے میں پائی جانے والی سوچ میں واضح تبدیلی پیدا ہو گی۔ سٹراٹن کا مزید کہنا ہے کہ تمام کینسر کے جینوم کی جانکاری کے بعد ادویات سازی میں بھی انقلابی تبدیلیاں سامنے آسکیں گی۔ انتہائی شافی ادویات سازی کے ساتھ ساتھ اگر کینسر کا جراثیم دواؤں کے خلاف اپنی ہیت میں تبدیلی پیدا کرتا ہے تو وہ بھی انسانی دسترس میں ہو گا۔ تمام معالجین متفق ہیں کہ یہ تحقیق انسانوں کو کینسر جیسے موذی مرض سے نجات کا باعث بنے گی۔

Krebszellen
نانو ذرات سے بھی کینسر کے علاج کی کوشش جاری ہے،تصویر: das fotoarchiv

کینسر کےجینوم کو جاننے اور اُس کو کاغذ یا کمپیوٹر پر منتقل کرنے والے عالمی کنسورشیم میں دس ملکوں کے سائنسدان شریک ہیں۔ تحقیقاتی عمل پر ابھی مزید پانچ سال کا عرصہ درکار ہے اور اِس پر لاکھوں ڈالر کا خرچہ اٹھے گا۔ پرفیسر مائیکل سٹراٹن کا خیال ہے کہ ایک بار کیٹلاگنگ مکمل ہوگئی تو نوع انسانی اِس کے ثمرات کا فائدہ اٹھائے گی۔ پروفیسر سٹراٹن کے خیال میں کیٹلاگ کے عام ہونے کے بعد کینسر بھی ایک روٹین کی مرض رہ جائے گا۔ اِس تحقیق سے صحت مند انسانوں کے خون کے ٹیسٹ سے مستقبل میں پیدا ہونے والے کینسر کا اندازہ لگایا جا سکے گا جو ڈی این اے کے ساتھ منتقل ہوتا ہے۔

Erster Impfstoff gegen Krebs in Australien getestet
اووری کینسر کی مریضہ کو لگائی جانے والی ویکسین: فائل فوٹوتصویر: picture-alliance

ویلکم ٹرسٹ کے بیان کے مطابق اس تحقیق سے یہ بھی پتہ لگایا جا سکے گا کہ کونسا انسانی رہن سہن یا لائف سٹائل انسانی جسم میں سرطان کا سبب بنتا ہے۔ اس بارے میں سگریٹ نوشی کا حوالہ دیا گیا ہے جو پھیپھڑوں کے سرطان کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ اسی طرح ماحولیاتی فیکٹر بھی معلوم کئے جا سکیں گے جن سے کینسر افزائش پاتا ہے۔ اِس مناسبت سے جلد کے خطرناک سرطان کا حوالہ دیا گیا ہے جس کی ایک وجہ سورج کی روشنی ہے۔

مختلف سائنسدانوں کے خیال میں یہ ریسرچ انتہائی بنیادی اور تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ کیمبرج یونی ورسٹی کے کینسر ریسرچ ادارے کے پروفیسر کارلوس کلڈاس نے اِس عمل کو آثار قدیمہ کی کھائی سے منسلک کیا ہے۔ اُن کے خیال میں کھدائی کے سست عمل کے دوران قدیمی آثار و نوادرات کی دریافت ہوتی ہے اسی طرح سائنسدانوں نے انتہائی گہرائی میں جا کر کئی تہوں کو علیحدہ کرنے کے تکلیف دہ اور پیچیدہ عمل سے کینسر کے جینوم کو اپنی دسترس میں کیا ہے۔

کینسر کے مرض میں مبتلا بہت سارے افراد نے اس تحقیق پر جہاں مسرت کا اظہار کیا ہے وہیں اُن کے خیال میں اِس ریسرچ کا اصل پھل اگلی نسل کو حاصل ہو گا۔ کیونکہ ابھی تحقیق عمل جاری ہے اور اس کے مکمل ہونے میں کم از کم پانچ سال درکار ہیں۔

رپورٹ : عابد حسین

ادارت : افسر اعوان