سرکردہ طالبان رہنماؤں پر سفری پابندیاں، سلامتی کونسل منقسم
20 اگست 2022اقوام متحدہ کے سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ روس اور چین تمام 13 طالبان رہنماؤں کے لیے سفر کی سہولت جاری رکھنے کی اجازت دینا چاہتے ہیں، جب کہ امریکہ اور مغربی ممالک طالبان کی جانب سے خواتین کے حقوق کی بحالی اور جامع حکومت کا وعدہ پورا نہ کرنے کے خلاف احتجاج کے طور پر ان طالبان رہنماؤں کی تعداد کم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
سلامتی کونسل کے سفارت کاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ روس اور چین نے جمعے کی شام امریکی تجویز پر غور کرنے کے لیے مزید وقت مانگا کیوں کہ اس ضمن میں ہونے والی بحث نجی نوعیت کی تھی۔
اس طرح 13 طالبان عہدیداروں پر عائد سفری پابندیاں پیر یعنی 22 اگست تک ہی بحال ہو سکیں گی، جب روس اور چین امریکی تجویز کا جواب دیں گے۔
نئی تجاویز زیر غور
سلامتی کونسل کے سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ باقی 13 طالبان عہدیداروں کے لیے سفری چھوٹ کی میعاد ختم ہونے پر امریکہ نے جمعرات کو ان میں سے سات پر دوبارہ سفری پابندی عائد کرنے اور دیگر چھ کے لیے استثنیٰ برقرار رکھنے کی تجویز پیش کی لیکن ان کے سفر کو صرف قطر تک محدود رکھا گیا جہاں امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہو چکے ہیں۔
سفارت کاروں کے مطابق روس اور چین نے متبادل تجویز پیش کیں کہ تمام 13 طالبان عہدیداروں کو 90 دن کے لیے سفری چھوٹ دی جائے لیکن وہ صرف روس، چین، قطر اور علاقائی ممالک کا سفر کریں۔
سفارت کاروں نے بتایا کہ روس اور چین نے امریکی تجویز پر اعتراض کیا جبکہ برطانیہ، فرانس اور آئرلینڈ نے روس اور چین کی تجویز کی مخالفت کی۔ ان ملکوں نے اصرار کیا کہ تمام 13 عہدیداروں کے لیے یہ استثنیٰ جاری نہیں رہ سکتا کیوں کہ طالبان نے خواتین کے حقوق، جامع حکومت کی تشکیل اور دیگر معاملات کے حوالے سے اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔
جمعے کی سہ پہر سفارت کاروں نے کہا کہ امریکہ نے اپنی تجویز پر نظرثانی کی ہے، جس کے تحت سات طالبان حکام پر سفری پابندی ہو گی اور دیگر چھ کے لیے سفری چھوٹ کو جغرافیائی حدود کی پابندی کے بغیر 90 دنوں کے لیے برقرار رکھا جائے گا۔ یہی وہ تجویز ہے، جس پر روس اور چین اب غور کر رہے ہیں۔
پچھلے کئی برسوں سے طالبان کے درجنوں اراکین اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ میں شامل ہیں۔ اس وجہ سے ان پر سفری پابندیاں عائد ہیں، ان کے اثاثے منجمد ہیں اور ہتھیاورں کی خریدو فروخت پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ لیکن طالبان کے کئی عہدیداروں کو سفری پابندیوں سے مستشنیٰ رکھا گیا ہے تاکہ وہ افغانستان میں امن اور استحکام بحال کرنے کے لیے دنیا کے مختلف مقامات پر ہونے والے مذاکرات میں شامل ہو سکیں۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے سیاسی مشن کی گزشتہ ماہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک برس کے دوران افغان خواتین سے ان کے بہت سے انسانی حقوق چھین لیے گئے، انہیں سیکنڈری اسکولوں میں تعلیم سے روک دیا گیا اور ان کی آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی لگا دی گئی۔
طالبان کے خلاف پابندیوں کی نگرانی کرنے والی سلامتی کونسل کی کمیٹی نے جون میں خواتین پر پابندیوں کے جواب میں طالبان کے دو عہدیداروں کے بیرون ملک سفر کرنے پر پابندی لگا دی تھی، جن میں قائم مقام نائب وزیر تعلیم سید احمد شید خیل اور ہائر ایجوکیشن کے قائم مقام وزیر عبدالباقی بصیر اول شاہ، جنہیں عبدالباقی حقانی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، شامل ہیں۔
ج ا/ ا ا (اے پی، اے ایف پی)