سری لنکا میں بڑھتی بودھ مسلم کشیدگی
11 اگست 2013گزشتہ شب ضلع گرینڈ پاس میں مسجد پر ہونے والے اس حملے میں مختلف نیوز ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق چار تا سات افراد زخمی ہو گئے تھے، جو ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ اب اگرچہ کرفیو کی پابندی ختم کر دی گئی ہے تاہم پولیس کے سینکڑوں ارکان، جن میں فسادات سے نمٹنے کے لیے تشکیل دیے گئے خصوصی دستے اور ایلیٹ اسپیشل ٹاسک فورس کمانڈوز بھی شامل ہیں، بدستور چوکس ہیں اور کسی بھی صورت حال سے مقابلے کے لیے تیار ہیں۔ پولیس کے ایک ترجمان نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے کہا:’’کرفیو آج صبح ختم کر دیا گیا تھا تاہم وہاں ابھی بھی ہماری بھرپور موجودگی برقرار ہے۔‘‘
ابھی اس پُر تشدد واقعے پر حکومت کی جانب سے کوئی فوری ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔ یہ واقعہ متعلقہ علاقے میں ایک نئی مسجد کے افتتاح کے بعد رونما ہوا۔ بودھ آبادی کو مسجد میں توسیع پر اعتراض ہے، جو گزشتہ چالیس سال سے اسی مقام پر آباد چلی آ رہی ہے اور جس کا ایک حصہ حکومت نے اپنے ایک تعمیراتی منصوبے کے لیے حاصل کر لیا تھا۔
مسلمان علماء بدستور تشویش کا شکار ہیں۔ سری لنکا میں مسلمان علماء کی تنظیم آل سیلون جمیعت العلماء کے ترجمان فازین فاروق نے اے ایف پی کو بتایا:’’ہم اس ردعمل پر بہت حیران ہوئے کیونکہ ہم تو سوچ رہے تھے کہ حالات معمول پر آ رہے ہیں۔ اس حملے کے بعد ہم پھر سے پریشان ہو گئے ہیں اور ہمیں لگتا ہے کہ یہ (مسلم مخالف رجحانات) جاری رہیں گے۔ ہم اس حملے کی مذمت کرتے ہیں۔‘‘
فاروق نے مزید بتایا کہ مسلمانوں کے خلاف یہ واقعہ اُس واقعے کے پانچ ماہ بعد رونما ہوا ہے، جس میں دارالحکومت کولمبو کے نواح میں دو ایسی دکانوں کو نذرِ آتش کر دیا گیا تھا، جو مسلمانوں کی ملکیت تھیں۔ آتش زنی کی اس واردات کے الزام میں اس سال مارچ کے مہینے میں تین بودھ راہبوں اور چودہ دیگر افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ بعد ازاں ان افراد کو رہا کر دیا گیا کیونکہ نہ تو پولیس نے اور نہ ہی متاثرین نے الزامات کی پیروی کی۔
فاروق کے مطابق:’’ہم سوچ رہے تھے کہ اُس کے بعد سے اب حالات معمول پر آ چکے ہیں۔ حکومت نے بھی حالات کو پُر سکون کرنے کے لیے کافی اقدامات کیے ہیں لیکن پھر یہ اچانک واقعہ رونما ہوا ہے، جس نے ہماری مسلم کمیونٹی کو بہت پریشان کر دیا ہے۔‘‘
مسلم سول سوسائٹی گروپوں کی مرکزی تنظیم ’دی سری لنکا مسلم کونسل‘ نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس کونسل کے مطابق مسجد پر یہ حملہ حکام کی طرف سے کرائی گئی ان یقین دہانیوں کے باوجود ہوا کہ ایک قریبی بودھ مندر کی طرف سے احتجاج کے باوجود یہ نئی مسجد یہاں تعمیر کی جا سکتی ہے۔ کونسل کے صدر این ایم امین نے بتایا:’’مسجد کی حفاظت کے لیے پولیس تعینات کی گئی تھی لیکن افسوس کہ کانسٹیبل امن و امان قائم رکھنے میں ناکام رہے۔ اب مسلم کمیونٹی اپنی سلامتی کے لیے پریشان ہے۔‘‘
ایک سکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ زخمی ہونے والوں میں یہ دونوں پولیس کانسٹیبل بھی شامل ہیں۔ مقامی آبادی کے مطابق بودھ مندر کی گھنٹیاں بجا کر درجنوں لوگوں کو جمع کر لیا گیا، جنہوں نے شام کے وقت مسجد پر دھاوا بول دیا۔ اس بوھ ہجوم کی جانب سے مسجد پر پتھراؤ کیا گیا اور نمازیوں کو مارا پیٹا گیا۔ اس تصادم کے دوران علاقے کے کئی گھروں کو بھی نقصان پہنچا۔
سری لنکا میں مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت سری لنکن مسلم کانگریس صدر مہندا راجاپاکسے کی مخلوط حکومت میں شامل ہے۔ تاہم انتہا پسند بودھوں نے حال ہی میں مسلمان علماء کو مقامی سطح پر بیچی جانے والی خوراک کو حلال ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے یہ کہہ کر روک دیا کہ اس سے اکثریتی غیر مسلم آبادی کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔
سری لنکا کی بیس ملین آبادی میں سے ستّر فیصد بودھ مذہب کی پیروی کرتی ہے۔ مسلمان اس ملک کی دوسری بڑی اقلیت ہیں اور ملکی آبادی میں اُن کی شرح 9 فیصد سے کچھ ہی کم ہے۔ ہندوؤں کا تناسب مسلمانوں سے زیادہ یعنی تیرہ فیصد ہے۔ باقی مسیحیت کے پیروکار ہیں۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران مسلمانوں اور مسیحیوں کی عبادت گاہوں کے خلاف حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ دیگر مذاہب کے خلاف اس تحریک کی قیادت بوڈُو بالا سینا (Bodu Bala Sena) نامی ایک گروپ کر رہا ہے، جس کی سربراہی بودھ راہب کر رہے ہیں۔ یہ لوگ خود کو ’محب وطن طاقتیں‘ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ بودھ اکثریت کی ترجمانی کر رہے ہیں۔