سری لنکا میں جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے نہیں کہہ سکتا، بان کی مون
26 اپریل 2011اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا کہنا ہے کہ اس کے لیے کولمبو حکومت کے فیصلے کا انتظار کیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بان کی مون کی اس دلیل کو مسترد کر رہی ہیں۔
عالمی ادارے کے تشکیل کردہ پینل کی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ تامل باغیوں کے خلاف حتمی کارروائی کے دوران، اطراف جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے۔ اس پینل نے سیکریٹری جنرل بان کی مون سے معاملے کی بین الاقوامی سطح پر شفاف تحقیقات کرانے اور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا تھا۔
بان کی مون کے ترجمان مارٹن نیزریکی کا کہنا ہے، ’’ سیکریٹری جنرل کو بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن کے قیام کا جو مشورہ دیا گیا ہے، اس میں سری لنکا کی حکومت یا ایک مناسب بین الاقوامی فورم کے رکن ممالک کی رضامندی کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا ہے۔‘‘ دوسرے الفاظ میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل، جنرل اسمبلی، انسانی حقوق کی کونسل، یا ایسے ہی کسی دوسرے ادارے کی معاونت کے بغیر بان کی مون سری لنکا میں وسیع پیمانے پر شہری ہلاکتوں کی تحقیقات کا حکم نہیں دے سکتے۔ سری لنکا، ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں قائم بین الاقوامی فوجداری عدالت کا رکن بھی نہیں اس لیے یہ عدالت بھی اپنے طور پر کچھ نہیں کرسکتی
سفارتی ذرائع کے مطابق سکیورٹی کونسل میں ویٹو طاقت رکھنے والے ملکوں چین اور روس کے علاوہ بھارت بھی سری لنکا کے معاملے کی بین الاقوامی تحقیقات کا مخالف ہے۔ اقوام متحدہ کے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں واضح الفاظ میں کہا تھا کہ قریب تین دہائیوں تک جاری رہنے والی اس جنگ کے آخری دنوں میں بڑے پیمانے پر نہتے انسانوں کا خون کیا گیا، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ کولمبو حکومت نے مئی 2009ء میں تامل باغیوں کی قیادت کی ہلاکت اور تحریک کے خاتمے کا اعلان کردیا تھا۔ اس پس منظر میں بیشتر شہری ہلاکتوں کی ذمہ داری کولمبو کی فوج پر ہی عائد کی جارہی ہے۔
یو این کی رپورٹ میں بالخصوص سری لنکن فوج کی جانب سے ملک کے شمال اور مشرق میں شورش زدہ علاقوں پر بلا امتیاز گولہ باری کو بیشتر ہلاکتوں کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ سکیورٹی فورسز نے جنگ زدہ علاقوں تک امداد کی رسائی روک رکھی تھی۔ اس خونریزی میں مارے جانے والوں کی تعداد کا اندازہ چالیس ہزار کے قریب لگایا جاتا ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عاطف بلوچ