سری لنکا میں ’جنگی جرائم‘ کی وضاحت کے لیے عالمی کوششیں
15 مارچ 2012انسانی حقوق کی کئی بین الاقوامی تنظیموں کا اندازہ ہے کہ اس خانہ جنگی کے آخری ہفتوں میں 40 ہزار تک عام شہری بھی مارے گئے تھے۔ لیکن سری لنکا میں آج تک ان مبینہ جنگی جرائم کے سلسلے میں کسی کو بھی جواب دہ نہیں بنایا گیا۔
کولمبو حکومت ان واقعات کی غیر جانبدارانہ چھان بین کے خلاف ہے۔ لیکن اس بارے میں جنیوا میں انسانی حقوق کی عالمی کونسل موجودہ جمود کے خاتمے کی وجہ بن سکتی ہے۔ کونسل کے اجلاس میں اس حوالے سے ایک قرارداد پر رائے شماری 22 اور 23 مارچ کو ہو گی۔
سری لنکا کے پلانٹیشن انڈسٹری کے وزیر مہیندا سمارا سنگھے اپنے ساتھ آنے والے سو رکنی وفد کے ساتھ گزشتہ کئی ہفتوں سے ان کوششوں میں ہیں کہ کسی طرح اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں سری لنکا سے متعلق کسی بھی قرارداد کو منظور ہونے سے رکوا سکیں۔
اس مجوزہ قرارداد کا تعلق سری لنکا میں خانہ جنگی کے اس آخری مرحلے سے ہے، جس میں سرکاری دستوں کو تامل ٹائیگرز کے خلاف حتمی کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ اس جنگ کے دونوں ہی فریقوں پر شبہ ہے کہ وہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب ہوئے تھے۔
آخری ہفتوں میں جب سرکاری دستوں نے ملک کے انتہائی شمال میں اپنی جانیں بچانے کے لیے نقل مکانی پر مجبور تامل نسل کے عام باشندوں کو گھیرے میں لے کر ان پر توپخانے سے گولہ باری شروع کر دی تھی، تو بڑے محتاط اندازوں کے مطابق بھی شبہ ہے کہ 40 ہزار تک عام شہری مارے گئے تھے۔
بعد ازاں سری لنکا کے صدر مہیندا راجا پاکسے نے دعویٰ کیا تھا کہ تب ملکی فوج نے دراصل ان تامل باشندوں کو چھڑوانے کے لیے کارروائی کی تھی، جنہیں پسپا ہوتے ہوئے تامل باغیوں نے یرغمالی بنا لیا تھا اور اس عمل کے دوران ملکی فوج کے ہاتھوں ایک بھی عام شہری ہلاک نہیں ہوا تھا۔
لیکن ان دعوؤں کے برعکس کئی غیر ملکی ماہرین کا مؤقف کولمبو حکومت کے نقطہ نظر کی نفی کرتا ہے۔ ایسی شخصیات میں جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والی وہ خاتون ماہر قانون بھی شامل ہیں، جنہوں نے کئی دیگر ماہرین کے ساتھ مل کر ایک بین الاقوامی کمیشن کی صورت میں عالمی ادارے کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے کہنے پر سری لنکا میں خانہ جنگی کے آخری دنوں میں پیش آنے والے واقعات کی چھان بین کی تھی۔
یاسمین سُوکا نامی جنوبی افریقہ کی اس خاتون قانون دان نے جنیوا میں کہا، ’پہلی بار کسی حکومت نے تنازعے کے شکار کسی علاقے سے تمام بین الاقوامی تنظیموں کو باہر نکال دیا تھا۔ اس نئی طرح کی جنگی کارروائیوں کا طریقہ یہ تھا کہ آپ شہری آبادی پر حملے کریں اور ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ اس تنازعے میں کسی طرح کی کوئی بین الاقوامی مداخلت نہ کی جا سکے۔‘
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کا قیام 2006ء میں عمل میں آیا تھا اور سری لنکا میں خانہ جنگی کے آخری ہفتوں میں پیش آنے والے واقعات انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے وہ شدید ترین الزامات ہیں جن کے بارے میں یہ کونسل آج تک اصل حقائق تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ان حالات میں انسانی حقوق کی کونسل سری لنکا میں مبینہ جنگی جرائم کی چھان بین سے متعلق اپنے ارادوں میں کس حد تک کامیاب ہو سکے گی، اس کا اندازہ قریب ایک ہفتے بعد جنیوا میں ہونے والی رائے شماری کے بعد ہی لگایا جا سکے گا۔
رپورٹ: کلاؤڈیا وِٹّے / مقبول ملک
ادارت: افسر اعوان