سری لنکا میں مبینہ جنگی جرائم، رپورٹ کا اجراء مؤخر
16 فروری 2015سری لنکا میں سن 2009ء میں طویل مدت سے جاری خانہ جنگی کے آخری ایام میں فوج نے تامل باغیوں کے خلاف طاقت کا زبردست استعمال کرتے ہوئے کئی دہائیوں سے جاری اس بغاوت کو حتمی طور پر کچل دیا تھا۔ تاہم اس کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے یہ الزامات بار بار دہرائے جاتے رہے ہیں کہ سری لنکا کی فوج نے اس دوران مبینہ طور پر جنگی جرائم کا ارتکاب کیا۔ اس بارے میں اقوام متحدہ کی طرف سے صاف اور شفاف تحقیقات کے مطالبات سری لنکا کی سابقہ حکومت کی جانب سے مسترد کیے جانے کے بعد حقوق انسانی کی عالمی کونسل نے اس سلسلے میں خود ہی تحقیقات کا آغاز کر دیا تھا۔ تاہم حالیہ انتخابات میں طویل عرصے سے سری لنکا پر حکومت کرنے والے صدر راجا پکشے کی شکست اور وہاں نئی حکومت کی جانب سے عالمی تحقیقات میں تعاون کے اعلان کے بعد اس عالمی کونسل نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ کو چھ ماہ کے لیے مؤخر کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
پیر کے روز اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر زید راعد علی حسین کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ حسین کی جانب سے اس رپورٹ کے اجراء کو مؤخر کرنے سے متعلق درخواست کو حقوقِ انسانی کی عالمی کونسل نے منظور کر لیا ہے۔ خیال رہے کہ یہ رپورٹ اگلے ماہ جاری کی جانا تھی، تاہم اب اسے رواں برس ستمبر میں جاری کیا جائے گا۔
انسانی حقوق کے کمشنر کے مطابق سری لنکا کی نئی حکومت کی جانب سے تحقیقات میں تعاون کی یقین دہانیوں کے بعد اہم اور نئی معلومات تک رسائی ممکن ہے، جس سے یہ رپورٹ مزید مضبوط اور مؤثر ہو گی۔
یہ بات اہم ہے کہ رواں برس جنوری میں سری لنکا میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں متھری پالا سری سینا نے غیر متوقع طور پر راجا پکشے کو شکست دیتے ہوئے عہدہ صدارت سنبھالا تھا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سن 2009ء میں حکومتی فورسز نے تامل باغیوں کے خلاف اپنی حتمی کارروائی میں ممکنہ طور پر 40 ہزار کے قریب عام شہریوں کو قتل کیا۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سن 1972 تا 2009 تک جاری رہنے والے اس مسلح تنازعے میں کم از کم ایک لاکھ افراد مارے گئے۔