سری لنکا کا سابقہ جنگی علاقہ: پہلے صوبائی انتخابات ستمبر میں
16 جون 2013کولمبو سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق سری لنکا کے صدر نے ساتھ ہی اپنی حکومت کے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ آئندہ انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی صوبائی کونسل کے اختیارات محدود ہوں گے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے کولمبو سے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ موجودہ مخلوط حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ وہ بلدیاتی کونسلوں کے الیکشن کے نتیجے میں تامل آبادی کو اقتدار میں شرکت کا موقع دے گی۔ یہ وعدہ مئی 2009ء میں ان خونریز کارروائیوں کے بعد کیا گیا تھا، جن کے نتیجے میں تامل باغیوں کی علیحدگی پسندی کی تحریک کو فوجی طاقت سے کچل دیا گیا تھا۔ سری لنکا میں یہ خونریز نسلی تنازعہ قریب چار عشروں تک جاری رہا تھا۔
صدر راجاپاکسے نے اپنے آج کے بیان سے قبل کل ہفتے کے روز شمالی سری لنکا میں کیلی نوچھی کے علاقے کا دورہ بھی کیا تھا۔ شمالی سری لنکا کا یہ خطہ ماضی کے تامل ٹائیگرز کہلانے والے علیحدگی پسندوں کا سیاسی دارالحکومت سمجھا جاتا تھا۔
راجاپاکسے نے کیلی نوچھی کے اپنے دورے کے دوران کہا کہ کولمبو حکومت کی طرف سے ماضی میں خانہ جنگی کا شکار رہنے والے ملکی علاقے میں صوبائی کونسل کے انتخابات پروگرام کے مطابق اسی سال ستمبر میں کرائے جائیں گے۔ سری لنکا میں ماضی کے جنگی علاقے کی یہ منتخب صوبائی کونسل ’شمالی صوبائی کونسل‘ کہلائے گی۔ اس بارے میں کولمبو حکومت کی طرف سے یہ بھی واضح کیا جا چکا ہے کہ یہ کونسل منتخب تو وقت پر کی جائے گی لیکن اسے حاصل اختیارات محدود کر دیے جائیں گے۔
کولمبو میں ایک حکومتی ترجمان نے بتایا کہ اس سلسلے میں ایک قانونی بل پرسوں منگل کے روز پارلیمان میں پیش کر دیا جائے گا۔ اس بل کی منظوری کے ساتھ صوبائی کونسل سے یہ اختیارات واپس لے لیے جائیں گے کہ وہ کسی دوسری کونسل کے ساتھ مل کر ایک زیادہ بڑا علاقائی یونٹ قائم کر سکے۔
حکومت آئندہ دنوں میں اس مقصد کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی بھی قائم کرنا چاہتی ہے، جو اس بارے میں تجاویز پیش کرے گی کہ صوبائی کونسلوں کے اختیارات میں مزید کمی کس نوعیت کی ہونی چاہیے۔ سری لنکا میں صوبائی کونسلوں کا نظام 1987ء میں قائم کیا گیا تھا اور اس مقصد کے لیے خاص طور پر تامل آبادی والے علاقوں میں نسلی بنیادوں پر امن کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے تامل باشندوں کو ایک خاص حد تک خود مختاری دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
سری لنکا نے وفاقی انتظامی نظام 1987ء میں اپنایا تھا لیکن تب سے اب تک تامل اکثریتی آبادی والے شمالی حصے میں ایک مرتبہ بھی الیکشن نہیں کرائے گئے۔ شمالی سری لنکا کا یہ علاقہ براہ راست صدارتی عمل داری میں ہے۔ اس کے برعکس ملک کے دیگر علاقوں میں، جہاں سنہالی نسل کی آبادی کی اکثریت ہے، صوبائی کونسلیں کافی عرصے سے کام کر رہی ہیں۔ سنہالی اکثریت والے علاقوں میں صدر راجاپاکسے کی پارٹی کو کنٹرول حاصل ہے۔
سری لنکا کو اس وقت اس بارے میں بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے کہ اسے اپنے ہاں نسلی بنیادوں پر مصالحتی عمل کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ کولمبو حکومت سے تامل علیحدگی پسندی کی تحریک کے آخری مہینوں کے دوران ملکی فوج کے ہاتھوں مبینہ جنگی جرائم کے ارتکاب کی چھان بین کے مطالبے بھی کیے جاتے ہیں۔ کولمبو حکومت ان دعووں کو مسترد کرتی ہے کہ خانہ جنگی کے آخری مرحلے میں چار ہزار تک عام شہری بھی مارے گئے تھے۔
ij / mm (AFP)