1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سری لنکا کے صدر اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر بھارت پہنچ گئے

16 دسمبر 2024

سری لنکا کے صدر انورا کمارا ڈسانائیکے منصب سنبھالتے ہی اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر آج بھارتی شہر نئی دہلی پہنچے جہاں وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ان کا شاندار استقبال کیا۔

https://p.dw.com/p/4oDFq
صدر انورا کمارا ڈسانائیکے (دائیں) اور وزیر اعظم نریندر مودی (بائیں)
بھارتی حکومت نے صدر انورا کمارا ڈسانائیکے کا ایوان صدر میں فوجی اعزاز کے ساتھ پرتپاک استقبال کیاتصویر: REUTERS

صدر انورا کمارا ڈسانائیکے نے بھارت کے ساتھ تعلقات کو سری لنکا کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم جزو قرار دیا۔ ملک میں بدعنوانی کے خاتمے کے عہد کے ساتھ ستمبر میں اقتدار سنبھالنے والے صدر ڈسانائیکے نے بتایا کہ وزیرِاعظم نریندر مودی نے انہیں سری لنکا کو مکمل معاونت فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی نے بھی صدر ڈسانائیکےکے دورہ بھارت کو خوش آئند قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ملاقات دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی توانائی اور نئی رفتار  بخشے گی۔

بھارتی حکومت، جسے سری لنکا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر شدید تشویش ہے، نے انورا کمارا ڈسانائیکے کا ایوان صدر میں فوجی اعزاز کے ساتھ پرتپاک استقبال کیا۔

بھارت سری لنکا کا ایک اہم تجارتی شراکت دار ہے جہاں اس کی برآمدات کا حجم 4.1 ارب ڈالر ہے۔ مزید برآں یہ سری لنکا کو ترقیاتی منصوبوں میں بھی معاونت فراہم کر رہا ہے۔

تاہم، چین سری لنکا کا سب سے بڑا قرض دہندہ ہے اور 2025 کے آغاز میں چینی رہنماؤں سے ملاقات کے لیے صدر ڈسانائیکے کا دورہ بیجنگ بھی متوقع ہے۔

نئی دہلی کے صدارتی محل میں ڈسانائیکے کے استقبال کے دوران صدر انورا کمارا ڈسانائیکے، ان کی ہندوستانی ہم منصب دروپدی مرمو اور وزیر اعظم نریندر مودی
صدر انورا کمارا ڈسانائیکے نے بھارتی وزیر خزانہ، وزیر خارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کے ساتھ دونوں ممالک کے اقتصادی اور سلامتی کے امور پر ہونے والی بات چیت کو بھی مفید قرار دیاتصویر: REUTERS

سن 2022 میں سری لنکا میں غیر ملکی زرمبادلہ کا شدید بحران پیدا ہوگیا تھا جس کے سبب خوراک، ایندھن اور ادویات جیسی لازمی اشیاء کی سنگین قلت پیدا ہوگئی تھی۔ اس مالی بحران کے نتیجے میں 46 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضوں کا شکار ملک دیوالیہ ہوگیا تھا۔

صدر انورا کمارا ڈسانائیکے نے بتایا کہ، ’’ہم نے دو سال قبل ایک غیر معمولی اقتصادی بحران کا سامنا کیا تھا اور بھارت نے اس سے نکلنے میں ہماری بھرپور مدد کی تھی۔‘‘

انہوں نے بھارتی وزیر خزانہ، وزیر خارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کے ساتھ دونوں ممالک کے اقتصادی اور سلامتی کے امور پر ہونے والی بات چیت کو بھی مفید قرار دیا۔

سری لنکا کا جغرافیائی محل و وقوع اسے عالمی تجارت اور سیاست میں اہم بناتا ہے۔ یہ اس اہم بحری گزرگاہ کے قریب واقع ہے، جو مشرق وسطیٰ اور مشرقی ایشیا کے ممالک کے درمیان سامان کی ترسیل کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

نومبر میں نیو یارک کی ایک عدالت میں وزیر اعظم نریندر مودی کے قریبی ساتھی، بھارت کی معروف تجارتی کمپنی 'اڈانی گروپ' کے چیئرمین گوتم اڈانی اور ان کے ساتھیوں پر رشوت ستانی اور دھوکہ دہی کے الزام میں فرد جرم عائد کی گئی تھی، جسے اڈانی گروپ نے سختی سے مسترد کر دیا تھا۔ اس کے بعد نہ صرف کمپنی کے شیئرز کی قیمتوں میں نمایاں کمی آئی بلکہ اس کے نظم و نسق پر بھی شکوک و شبہات پیدا ہوگئے تھے۔

تاہم ان الزامات کے باوجود سری لنکا کی حکومت نے کولمبو میں اڈانی بندرگاہ منصوبے کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔

ح ف / ک م  (اے ایف پی)

سری لنکا میں مظاہرین کا صدارتی محل پر قبضہ، اب کیا ہو گا؟