1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سزائے موت: آخر کب تک؟

گوہر نذیر گیلانی14 اکتوبر 2008

دنیا کے ایک سو سینتیس ممالک میں آج بھی سزائے موت پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ حقوق انسانی کی تنظیموں کے اعدادوشمار کے مطابق اس حوالے سے امریکہ، چین، جاپان، ویتنام، اور پاکستان جیسے ممالک میں صورتحال ابتر ہے۔

https://p.dw.com/p/FZGZ
تصویر: AP/DW

سن دو ہزار تین سے ہر سال دس اکتوبر کو سزائے موت کے خلاف عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔

اس موقعہ پر حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیم، ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکرٹری جنرل، آئرین خان نے ایک مرتبہ پھر موت کی سزا کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ آئرین خان نے بتایا کہ اس بار ’’ورلڈ کولیشن اگینسٹ دی ڈیتھ پینلٹی‘‘ ایشیاء اور بحرالکاہل کے خطّوں کو ٹارگیٹ کررہی ہے۔

’’ اس سال ’ورلڈ کولیشن اگینسٹ دی ڈیتھ پینلٹی‘ ایشیائی ممالک کو ہدف بنارہی ہے کیونکہ ایشیاء دنیا کا ایسا حصّہ ہے جہاں موت کی سزا پر سب سے زیادہ عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ ایسا خطّہ ہے جہاں صورتحال میں تبدیلی کی امید بھی ہے۔‘‘

Video-Aufnahme von Saddam Hussein nach der Hinrichtung in Bagdad Quelle: Biladi TV
عراق کے سابق صدر صدام حسین کو بھی پھانسی دی گئی ، یہ ویڈیو ان کی پھانسی کے بعد جاری کی گئیتصویر: AP

امریکہ، جاپان، چین، تائیوان، سعودی عرب، جنوبی کوریا، ایران، پاکستان اور بھارت سمیت دنیا کے کئی ممالک میں آج بھی سزائے موت پر عمل درآمد کیا جاتا ہے اور اس سلسلے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کا موقف ہے کہ یہ سزا انسانی حقوق کی بنیادی ترین اور سنگین خلاف ورزی ہے۔

سزائے موت کے حوالے سے پاکستان کی صورتحال کے بارے میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، یا ایچ آر سی پی، کے شریک چئیرمین ، اقبال حیدر کہتے ہیں:

’’ صورتحال تسلی بخش نہیں ہے۔ کیونکہ پچھلے سال بھی یہاں چند افراد کو، چند افراد، کو پھانسی دی گئی۔‘‘

Zulfikar Ali Khan Bhutto
سابق پاکستانی وزیر اعظم اور مقتول بے نظیر بھٹو کے والد ذوالفقار علی بھٹو کو چار اپریل انیس سو اناسی کو پھانسی دی گئیتصویر: picture-alliance/ dpa

تاہم اقبال حیدر اس بات کو خوش آئیند قرار دیتے ہیں کہ سزائے موت کے خلاف پاکستان کے حکمرانوں کی سوچ اور مزاج میں تبدیلی آرہی۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ تنگ نظر اور سخت گیر موقف کے حامل مذہبی لوگ سزائے موت کے خاتمے میں سب بڑی رکاوٹ ہیں۔

سن انیس سو باسٹھ میں بیلجیم منعقدہ ایک کانفرنس میں یہ فیصلہ لیا گیا کہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے تحفّظ کے لئے باقاعدہ طور پر ایک تنظیم تشکیل دی جائے۔ اور اس طرح اسی سال ایمنسٹی انٹرنیشنل کے نام سے ایک بین الاقوامی تنظیم وجود میں آئی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل سزائے موت کو ریاستی قتل سے تعبیر کرتی ہے۔ سزائے موت کے بارے میں انسانی حقوق کے تحفّظ کے لئے کام کرنے والی اس بین الاقوامی تنظیم کا کہنا ہے کہ ’’افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ایسا، یعنی سزائے موت پر عمل درآمد، انصاف کے نام پر کیا جاتا ہے۔‘‘