1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہسعودی عرب

سعوديہ ميں سوئمنگ سوٹ فيشن شو کا انعقاد

18 مئی 2024

سعودی عرب ميں پہلی مرتبہ ايسا فيشن شو منعقد ہوا جس ميں ماڈلز نے سوئمنگ سوٹ پہن رکھے تھے۔ ايک ايسے ملک ميں جہاں ايک دہائی قبل عورتوں کو پورا جسم ڈھکنا پڑتا تھا اور برقعہ يا عبايا پہننا پڑتا تھا، يہ ايک بڑی تبديلی ہے۔

https://p.dw.com/p/4g1eh
Saudi-Arabien Red Sea Fashion Week
تصویر: Fayez Nureldine/AFP

'ريڈ سی فيشن ويک‘ نامی ايونٹ کے سلسلے ميں سعودی عرب کے مغربی ساحلی کنارے پر يہ فيشن شو جمعہ سترہ مئی کو 'سينٹ ريگيس ريڈ سی ريزورٹ‘ پر منعقد ہوا۔ سوئمنگ پول پر ہونے والے فيشن شو ميں مراکشی ڈيزائنر ياسمينا قنزال کے کام کی نمائش کی گئی۔ ان کی تازہ ترين کليکشن کے مختلف رنگوں ميں ون پيس سوئمنگ کاسٹيومز پہن پر ماڈلز نے واک کی۔

Saudi-Arabien Red Sea Fashion Week
تصویر: Fayez Nureldine/AFP

ڈيزائنر ياسمينا قنزال کے بقول يہ سچ ہے کہ سعودی عرب اب بھی ايک قدامت پسند ملک ہے۔ اسی ليے انہوں نے عرب معاشرے سے مطابقت رکھتے ہوئے ايسے سوئمنگ سوٹس ڈيزائن کيے، جو دلکش بھی لگيں اور زيادہ عرياں بھی نہ ہوں۔ انہوں نے کہا، ''جب ہم يہاں آئے، تو ہم اس بات سے واقف تھے کہ سوئم سوٹ کے فيشن شو کا انعقاد سعودی عرب ميں ايک تاريخی بات ہے۔ يہ پہلی مرتبہ ہے کہ ايسا کوئی شو منعقد ہو رہا ہے۔ اسی ليے يہ ہمارے ليے فخر کی بات ہے۔‘‘

سعودی عرب میں فیشن شو، خواتین کی جگہ ڈرون طیارے

سعودی عرب کی پہلی بار ’مس یونیورس‘ مقابلے میں ممکنہ شرکت

سعودی عرب اقوام متحدہ کے صنفی مساوات کے فورم کا سربراہ کیوں؟

گزشتہ برس سعودی عرب نے 170 افراد کو سزائے موت دی

سعودی فيشن انڈسٹری کی سن 2022 ميں ماليت ساڑھے بارہ بلين ڈالر تھی، جو کہ مجموعی قومی پيداوار کے لگ بھگ ڈيڑہ فيصد کے برابر بنتی ہے۔ سعودی فيشن کميشن کی جانب سے پچھلے سال جاری کردہ ايک رپورٹ کے مطابق اس صنعت سے دو لاکھ تيس ہزار افراد کی ملازمت وابستہ ہے۔

Saudi-Arabien Red Sea Fashion Week
تصویر: Fayez Nureldine/AFP

'وژن 2030ء‘ کيا ہے؟

جس ريزورٹ پر يہ فيشن شو منعقد ہوا، وہ دراصل 'ريڈ سی گلوبل‘ نامی ايک بہت بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے وژن 2030 کے تحت سعودی عرب ميں وسيع تر اقتصادی و سماجی اصلاحات کا سلسلہ جاری ہے۔ سعودی شہزادے نے سن 2017 ميں ولی عہد بننے کے بعد سے  کئی ايسے ڈرامائی اقدامات کيے ہيں، جن کا اس قدامت پسند عرب معاشرے ميں چند سال قبل تک تصور بھی ممکن نہ تھا۔

وہ سعودی معيشت کا خام تيل کے کاروبار پر مکمل دارومدار کم کرنے کے خواہاں ہيں۔ محمد بن سلمان ملک کی ساکھ کو بہتر بنانے کے ليے بھی کوشاں ہيں اور اس سلسلے ميں بالخصوص خواتين کے حوالے سے کئی نرمياں کی گئيں۔ سينما گھروں کا قيام، ايسے ميوزک فيسٹولز کا انعقاد جن ميں مرد و خواتين ايک ساتھ شرکت کر سکتے ہوں وغيرہ اسی وژن کی حقيقی مثاليں ہيں۔

تاہم انسانی حقوق کی تنظيميں اب بھی کئی امور ميں مسائل کی نشاندہی کرتی ہيں۔ مثال کے طور پر سياسی مخالفين کی حراست کے معاملے پر۔

سعودی خواتین تیز رفتار ٹرین چلانے لگیں

ع س / ع ت (اے ایف پی)