سعودی خواتین کوکیا کرنے کی اجازت نہیں؟
3 اگست 2019سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے انتہائی قدامت پسند سعودی عرب میں متعدد امور میں بڑی اصلاحات کرتے ہوئے خواتین پر عائد کئی پابندیوں کا خاتمہ تو کیا ہے، تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ خواتین اب بھی کئی طرح کے مسائل اور پابندیوں کا شکار ہیں۔
جمعے کے روز سعودی عرب کی جانب سے خواتین کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ کسی 'وارث‘ سے اجازت لیے بغیر سفر کر سکتی ہیں۔ اس سے قبل سعودی عرب میں یہ ضابطہ نافذ تھا کہ خواتین کو سفر کے لیے اپنے مرد 'والی‘ سے اجازت لینا پڑتی تھی۔ تاہم اب بھی زندگی کے اہم معاملات میں فیصلے کے لیے بھی خواتین کو مرد رشتہ داروں کی اجازت درکار ہوتی ہے۔
سعودی عرب: خواتین کو مزید حقوق مل گئے
سعودی خواتین کے لیے سفر کی آزادی؟
سعودی عرب میں خواتین کو اس وقت لاحق اہم مسائل اب بھی بدستور موجود ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی خاتون اپنی مرضی سے شادی نہیں کر سکتی۔ اس کے لیے اسے اپنے مرد 'والی‘ سے اجازت لینا پڑتی ہے۔ ایسی خواتین جو اس ضابطے کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوں، انہیں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح خواتین اگر کسی غیرملکی سے شادی کرتی ہیں، تو ان کے شوہروں کو سعودی شہریت منتقل نہیں ہوتی۔
جمعے کے روز سعودی حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ 21 برس سے زائد عمر کی خواتین پاسپورٹ حاصل کرنے اور بیرون ملک سفر کرنے کی مجاز ہوں گی۔ سعودی عرب میں خواتین کو اب پیدائش، شادی اور طلاق جیسے معاملات خود سے رجسٹر کرانے کا حق بھی دے دیا گیا ہے۔
اسی طرح خواتین کو اب خاندانی امور سے متعلق سرکاری دستاویزات جاری ہو سکیں گی، جس کا مطلب ہے کہ وہ بچوں کی 'کفیل‘ بھی بن سکیں گی۔
سن 2017 سے خواتین کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ اپنے مرد 'کفیلوں‘ سے پوچھے بغیر تعلیم اور صحت جیسی سہولتوں سے استفادہ کر سکتی ہیں۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان فیصلوں پر عمل درآمد اب بھی فقط 'ایڈہاک بنیادوں‘ پر ہو رہا ہے جب کہ اس معاملے میں مستقل بنیادوں پر کسی حل کی ضرورت ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ کئی معاملات میں فقط قانون سازی کافی نہیں، کیوں کہ قانون بن جانے کے باوجود معاشرتی طور پر کئی رسوم مسلسل جاری ہیں۔
ع ت، ش ح (روئٹرز، اے ایف پی)