یمن: سعودی زیر قیادت اتحاد کا فوجی کارروائی روکنے کا فیصلہ
30 مارچ 2022سعودی عرب کے زیر قیادت عسکری اتحاد نے 29 مارچ منگل کے روز کہا کہ اس نے اس بحران کا سیاسی حل تلاش کرنے کی کوششوں کے مقصد سے یمن میں جاری اپنے فوجی حملے روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔
تاہم ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے یمن کی بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں کو مکمل طور پر دوبارہ کھولے بغیر اتحاد کی جنگ بندی کی اس تجویز کو "بے معنی" قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ نے رمضان کے مہینے میں یمن کے اندر جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا، جس کے بعد سعودی عرب کے قیادت والے عسکری اتحاد کی طرف سے اس فیصلے کا اعلان کیا گيا۔ ممکنہ طور پر ماہ رمضان کا آغاز دو اپریل سے ہو سکتا ہے۔
سعودی پریس ایجنسی کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ "اس طرح اتحاد یمن میں اپنی فوجی کارروائیوں کے خاتمے کا اعلان کرتا ہے، جس کا نفاذ بدھ 30 مارچ 2022 کو مقامی وقت کے مطابق صبح چھ بجے ہو گا۔"
سعودی عرب کے زیر قیادت اتحاد کے ایک ترجمان ترکی المالکی نے اپنے بیان میں کہا کہ اتحاد، "جنگ بندی کو کامیاب بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا ۔۔۔۔۔۔ اور رمضان کے مقدس مہینے کے دوران ایک مثبت ماحول پیدا کرے گا، تاکہ امن قائم کرنے کے ساتھ ہی اس بحران کو ختم کیا جا سکے۔"
حوثی باغیوں کی 'ناکہ بندی' اٹھانے کی اپیل
ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے صنعا کے ہوائی اڈے کی مسلسل بندش اور اتحاد کی طرف سے ملک کی بندرگاہوں پر پابندیوں کی وجہ سے جنگ بندی کی اس پیشکش کو مسترد کر دیا۔
حوثی گروپ کے ایک عہدیدار محمد البوقیتی نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، "اگر ناکہ بندی نہیں ہٹائی گئی تو پھر جارحیت پر مبنی اتحاد کا اپنی فوجی کارروائیوں کو روکنے کا اعلان بے معنی ہے، کیونکہ ناکہ بندی کے نتیجے میں یمنیوں کو پہنچنے والی مشکلات جنگ سے بھی کہیں زیادہ شدید ہیں۔"
سات برس پرانے اس تنازعے کو ختم کرنے کے لیے عالمی برادری بھی جدوجہد کرتی رہی ہے اور اگر یہ جنگ بندی کامیاب ہو جاتی ہے تو گزشتہ تین برسوں کے دوران امن کی کوششوں میں، یہ سب سے اہم قدم ہو گا۔ یہ جنگ اب تک دسیوں ہزار جانیں لے چکی ہے اور اس نے یمن میں لاکھوں افراد کو فاقہ کشی کی طرف دھکیل دیا ہے۔
سعودی عرب میں قائم خلیج تعاون کونسل کا حوثی باغیوں اور سعودی عرب میں جنگ کے حوالے سے ایک سربراہی اجلاس ہونے والا ہے، تاہم حوثی اس کا یہ کہہ کر بائیکاٹ کر رہے ہیں کہ اس کا اہتمام ان کے دشمن کی سرزمین پر ہو رہا ہے، اس لیے وہ اس میں شریک نہیں ہوں گے۔ اس لیے اتحاد کے اس اعلان پر اب طرح طرح کے سوالات بھی اٹھ رہے ہیں۔
فوری طور پر یہ واضح نہیں ہے کہ اتحاد کی جانب سے یہ یکطرفہ جنگ بندی کب تک جاری رہے گی اور یہ کہ اگر حوثی باغی اس پر راضی نہیں ہوئے تو اتحاد کا رد عمل کیا ہو گا۔ ماضی میں بھی، اتحاد کی جانب کئی یکطرفہ جنگ بندی کی کوششیں ہوئیں تاہم وہ سب ناکام ہو چکی ہیں۔
یمن میں 2015 سے جنگ جاری ہے اور اقوام متحدہ دونوں فریقوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہےتاکہ ایک امن معاہدے تک پہنچا جا سکے۔ اگر ایسا ہوا تو یمن میں انسانی تباہی کو کم کرنے میں کافی مدد ملے گی۔
ص ز/ ب ج(اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)