سعودی عرب: اصلاحات سے انکار کب تک
21 اپریل 2011ملکی دارالحکومت ریاض سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق سعودی اصلاحات پسندوں کا کہنا ہے کہ یہ بات قدرے مشکل نظر آتی ہے کہ سعودی عرب میں بھی ممکنہ عوامی احتجاج کی وہی شدید لہر دیکھنے میں آئے، جس کا مشاہدہ دنیا نے ہمسایہ ملکوں بحرین اور یمن میں کیا۔ یا پھر یہ کہ سعودی عرب میں بھی ویسے ہی حالات پیدا ہوں جیسے تیونس، مصر اور لیبیا میں دیکھنے کو ملے۔
لیکن ساتھ ہی سعودی اصلاحات پسندوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دنیا میں تیل برآمد کرنے والا یہ سب سے بڑا اور امریکہ کا اہم اتحادی ملک ہمیشہ کے لیے خطے اور باقی ماندہ دنیا میں پیش آنے والے حالات و واقعات سے لاتعلق نہیں رہ سکے گا۔
سعودی عرب کی شہری اور سیاسی حقوق کی سےایک تنظیم کے سربراہ محمد القحطانی کے مطابق سعودی حکومت میں ایسے عناصر بھی موجود ہیں جن کا مفاد اسی میں ہے کہ کسی بھی تبدیلی کو ہر ممکن طریقے سے روکا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسے عناصر ڈنڈوں کے ذریعے مظاہروں کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ دعوے بھی کرتے ہیں کہ اجتماعی درخواستوں پر دستخط کرنا بھی اسلامی قوانین کے منافی ہے۔
لیکن محمد القحطانی کے بقول سوال یہ ہے کہ اس طرح کی صورت حال کتنی دیر تک قائم رہ سکتی ہے؟ ’’آج کے سعودی معاشرے میں بہت کچھ ہو رہا ہے۔ یہ معاشرہ اب غیر فعال نہیں رہا۔ یہ ممکن ہے کہ اگلے چند برسوں میں حالات قابو سے باہر ہو جائیں، چاہے اس کی وجہ عوامی عدم اطمینان بنے یا پھر اشرافیہ میں خود بخود پیدا ہونے والی اقتدار کی کشمکش۔‘‘
خبر ایجنسی روئٹرز کے مطابق سعودی عرب کے عمر رسیدہ شاہ عبداللہ اس سال کے دوران اب تک کل قریب 130 بلین ڈالر کے برابر اضافی اخراجات کا اعلان کر چکے ہیں۔ ان رقوم کو تنخواہوں میں اضافے، بے روزگار افراد کے لیے سوشل سکیورٹی کے بہتر انتظامات، گھروں کی تعمیر اور ساٹھ ہزار نئی سکیورٹی پوزیشنیں قائم کرنے کے لیے استعمال میں لایا جائے گا۔
اس کے علاوہ حکومت عوام کو یہ بھی باور کرا چکی ہے کہ وہ اسی سال انتخابات کا اہتمام بھی کرے گی، جن کے تحت پورے ملک میں مختلف بلدیاتی کونسلوں کی نشستوں پر ارکان کا چناؤ کیا جائے گا۔ یہ الیکشن سن 2009 میں ہونا تھے مگر ملتوی کر دیے گئے تھے۔ سعودی عرب میں ایسے انتخابات پہلی مرتبہ سن 2005 میں منعقد کرائے گئے تھے، اور وہ بھی سیاسی اصلاحات کے لیے امریکی دباؤ کے نتیجے میں۔ لیکن اب اس عرب ریاست میں اصلاحات پسندوں کو بلدیاتی کونسلوں کے نصف ارکان کے دوبارہ انتخاب میں زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ وہ اس امر میں کہیں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں کہ انہیں اپنے ہی ملک میں سیاسی حقوق ملنے چاہیئں، مثلاﹰ اس پس منظر میں کہ سعودی معاشرے میں خواتین کو نہ تو الیکشن میں ووٹ دینے کا حق حاصل ہے اور نہ ہی وہ امیدوار بن سکتی ہیں۔
اس طرح دیکھا جائے تو سعودی شاہی خاندان مستقبل میں بھی ملکی سیاست پر اپنے غلبے سے دستبردار ہوتا نظر نہیں آتا۔ تحت نشینی کے حقدار قانونی طور پر صرف اس ریاست کے بانی عبدالعزیز بن سعود کے بیٹے اور پوتے ہی سمجھے جاتے ہیں اور کابینہ میں اکثر عہدے بھی انہی شہزادوں کے پاس ہیں، جو اکثر کئی کئی عشروں تک ایک ہی وزارت کے نگران بنے رہتے ہیں۔
لندن میں مقیم خاتون ماہر عمرانیات مدوی الرشید کے بقول جب تک سعودی عرب میں تیل کی دولت سے حاصل ہونے والے امریکی ڈالروں کی ریل پیل ہے، سکیورٹی اداروں کا نظام ہر شعبہ زندگی تک پھیلا ہوا ہے اور جب تک حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملانے والے مذہبی رہنما موجود ہیں، تب تک اس ملک میں اصلاحات کی کسی بھی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔
الرشید کا کہنا ہے کہ آج کی سعودی انتظامیہ پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ ’’بیس سال قبل کسی بھی دانشور کے لیے یہ کام قدرے آسان تھا کہ وہ اس ملک میں اصلاحات کے خواب دیکھے۔ اب لیکن کوئی بھی تبدیلی بہت مشکل ہو چکی ہے۔‘‘ سماجی معاشرتی علوم کی اس ماہر کے بقول ’جب تک سعودی عرب میں دولت ہے اور یہ ملک ایک پولیس اسٹیٹ بنا رہے گا، تب تک کوئی بھی تبدیلی نہیں آ سکے گی‘۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: شادی خان سیف