سعودی عرب اور اسرائیل ’فریم ورک ڈیل‘ کی طرف رواں، وائٹ ہاؤس
30 ستمبر 2023امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں صدر جو بائیڈن کی سرکاری رہائش گاہ وائٹ ہاؤس کی طرف سے جمعہ انتیس ستمبر کی رات بتایا گیا کہ صدر بائیڈن کو امید ہے کہ مشرق وسطیٰ کا خطہ ایک بڑی تبدیلی کی جانب رواں ہے۔
دنیا میں اسرائیلی اسلحے اور ٹیکنالوجی کی مانگ میں اضافہ کیوں؟
اس تبدیلی سے مراد یہ ہے کہ خلیج کی علاقائی طاقت اور اسلامی دنیا کے دو مقدس ترین مقامات کی محافظ ریاست سعودی عرب یہودی ریاست اسرائیل کے وجود کو باقاعدہ طور پر تسلیم کر لے اور دونوں ممالک کے مابین معمول کے روابط قائم ہو جائیں۔
بنیادی فریم ورک ڈیل
امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کِربی نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں کو بتایا، ''میری رائے میں تمام فریقوں نے ایک ایسی بنیادی فریم ورک ڈیل طے کر لی ہے، جس پر عمل کرتے ہوئے آگے بڑھا جا سکے۔‘‘
اسرائیلی وزیر سیاحت سعودی عرب میں، سعودی وفد ویسٹ بینک میں
تاہم ساتھ ہی جان کِربی نے یہ بھی کہا، ''اس ڈیل کی عملی شکل تک پہنچنا ایک پیچیدہ انتظامی معاملہ ہے اور اس کے لیے آخر کار ہر کسی کو کچھ نہ کچھ معاملات میں سمجھوتہ کرنا ہی ہو گا۔‘‘
اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، پاکستانی وزیرخارجہ
اسرائیل کے خلیجی عرب ریاستوں متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ اور پھر مراکش کے ساتھ بھی معمول کے جو تعلقات قائم کر چکا ہے، ان کے بعد سے امریکہ مسلسل اس کوشش میں ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے مابین بھی باقاعدہ تعلقات قائم ہو جائیں۔
اس بارے میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے بھی ابھی حال ہی میں کہہ دیا تھا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آتے جا رہے ہیں۔ اسی طرح کا ایک بیان حال ہی میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو بھی دے چکے ہیں۔
اوسلو معاہدہ، غزہ کی امید جو چور چور ہو گئی
فلسطینی اسرائیلی تنازعہ
خبر رساں ا دارے اے ایف پی نے لکھا ہے کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کے بدلے میں امریکہ سے سلامتی کے شعبے میں کچھ مخصوص ضمانتوں کا خواہش مند ہے۔
دوسری طرف مشرق وسطیٰ کے عشروں پرانے اور اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین تنازعے کے حوالے سے سعودی عرب کی خواہش ہے کہ یہ مسئلہ بھی بالآخر حل ہونا چاہیے۔
فلسطینی اتھارٹی کے لیے پہلی مرتبہ سعودی سفیر تعینات
اس کے لیے سعودی قیادت کی طرف سے جو بات متعدد مرتبہ کہی جا چکی ہے، وہ 'زمین کے بدلے امن‘ کی سوچ ہے۔
اسی حوالے سے خود فلسطینی قیادت بھی یہ تنبیہ کر چکی ہے کہ سعودی عرب کو اسرائیل کے ساتھ کوئی بھی معاہدہ طے کرتے ہوئے یہ بات بھی مدنظر رکھنا ہو گی کہ اسرائیلی فلسطینی تنازعے کے ''دو ریاستی حل‘‘ کے بغیر مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن قائم ہو ہی نہیں سکے گا۔
م م / ع س (اے ایف پی، اے پی)