سعودی عرب اور بحرین کا لبنانی سفیر کو ملک چھوڑنے کا حکم
30 اکتوبر 2021سعودی عرب نے 29 اکتوبر جمعے کے روز لبنان کے سفیر کو ملک بدر کرنے کے اپنے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس نے لبنان سے تمام تر درآمد کی جانے والی اشیا پر بھی مکمل پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ریاض نے لبنان میں اپنے سفیر کو بھی مزید مشاورت کے لیے بھی طلب کیا ہے۔
سعودی عرب کا کیا کہنا ہے؟
سعودی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ لبنان کے وزیر اطلاعات کے "توہین آمیز" ریمارکس کے سبب بیروت میں اپنے سفارت کار کو مشاورت کے لیے واپس طلب کیا گیا ہے جبکہ ریاض میں لبنانی سفیر کو آئندہ 48 گھنٹوں کے اندر ملک چھوڑ دینے کا حکام دیا گيا ہے، نیز لبنان سے آنے والی تمام تر درآمدات کو بھی روک دیا گيا ہے۔
بیان میں کہا گيا، "سعودی عرب کی حکومت جمہوریہ لبنان کے ساتھ تعلقات کے نتائج پر افسوس کا اظہار کرتی ہے، کیونکہ لبنانی حکام حقائق کو نظر انداز کرتے رہے ہیں اور اس سے متعلق انہیں جو اصلاح کرنی چاہیے تھی اس میں بھی انہوں نے مسلسل ناکامی دکھائی ہے۔"
اس اعلان کے چند گھنٹے بعد ہی بحرین کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ بحرین کی مملکت نے بھی اسی وجہ سے لبنان کے سفیر کو دو دن کے اندر ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ بحرین کی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ "حالیہ دنوں میں لبنانی حکام کی طرف سے جاری کردہ ناقابل قبول اور جارحانہ بیانات کے ایک سلسلے کے پس منظر میں کیا گیا ہے۔"
لبنان کے وزیر اطلاعات جارج کورداہی نے اپنے ایک بیان میں، یمن میں مسلح حوثی باغیوں کے خلاف سعودی قیادت میں جاری جنگ پر تنقید کی تھی اور اس جنگ کو سعودی "جارحیت" کا نتیجہ قرار دیا تھا۔ اسی بیان کے منظر عام پر آنے کے بعد سعودی حکومت نے ان سخت اقدامات کا اعلان کیا۔
کورداہی نے ستمبر میں سفیر کے عہدے کے لیے منتخب ہونے سے قبل الجزیرہ ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران یہ باتیں کہی تھیں۔ لیکن اس کی فوٹیج اسی ہفتے اس وقت منظر عام پر آئی جب ان کی ایک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔
لبنان کا رد عمل
اس سے قبل لبنان کے وزیر اعظم نجیب میقاتی نے یہ کہہ کر اس کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کی کہ کورداہی کے بیانات لبنان کی حکومت کے موقف کی عکاسی نہیں کرتے۔ نجیب میقاتی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان کا یہ بیان ان کی تقرری سے قبل کا ہے۔
جمعے کو دیر گئے وزیر اعظم نجیب میقاتی کے میڈیا دفتر نے ایک بیان شائع کیا، جس کے مطابق انہوں نے اس بارے میں صدر میشائل عون سے صلاح و مشورہ کیا ہے اور وزیر اطلاعات و نشریات جارج کورداہی سے بھی بات چيت کی ہے، "ان سے کہا گيا ہے کہ وہ قومی مفاد کا جائزہ لیں اور عرب ممالک کے ساتھ لبنان کے تعلقات کو درست کرنے کے لیے مناسب فیصلہ کریں۔"
سعودی حکومت نے اس اقدام کا اعلان ایک ایسے وقت کیا ہے، جب نجیب میقاتی کی کابینہ پہلے ہی سے ملک کے مالیاتی بحران کے سبب پریشانیوں کا شکار ہے۔ اس تناظر میں وزیر اعظم اپنے پڑوسی عرب ممالک کے ساتھ رشتے بہتر کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے اس سفارتی تنازعے کے سبب لبنان پر دباؤ بہت زیادہ پڑ سکتا ہے اور جارج کورداہی کو مستعفی ہونا پڑ سکتا ہے۔
'لبنان کے تمام ادارے حزب اللہ کے کنٹرول میں ہیں'
سعودی عرب کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اس نے یہ اقدام اس لیے بھی کیے ہیں کہ لبنان دیگر مصنوعات کے ساتھ ہی ملک میں منشیات سمگل کرنے کی کوششوں کو روکنے میں ناکام رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے، "دہشت گرد حزب اللہ تنظیم تمام لبنانی اداروں کو کنٹرول کر رہی ہے۔"
لبنان کے سابق وزیر اعظم سعد حریری نے بھی سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ لبنان کے بگڑتے تعلقات کی ذمہ داری ایرانی حمایت یافتہ گروپ حزب اللہ پر عائد کی۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ کہا، "اس سلسلے میں سب سے پہلے اور سب سے اہم ذمہ داری حزب اللہ پر عائد ہوتی ہے، جو عربوں اور خلیج کی عرب ریاستوں کے ساتھ کھل کر اپنی دشمنی کا اظہار کرتی ہے۔"
جمعرات کے روز ہی حزب اللہ نے جارج کورداہی کے موقف کی تعریف کے لیے ایک بیان جاری کیا تھا۔ سعودی عرب کا یہ بھی کہنا ہے کہ حزب اللہ یمن کے حوثی باغیوں کی حمایت کرتا ہے۔
حزب اللہ ایک لبنانی شیعہ اسلام پسند سیاسی جماعت کے ساتھ ساتھ ایک عسکریت پسند گروپ بھی ہے۔ اس کا قیام سن 1975 سے نوے تک چلنے والی لبنان کی خانہ جنگی کے دوران ہوا تھا۔ لبنان اپنی اس خانہ جنگی کے بعد سے اس وقت اپنے بدترین معاشی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔
ص ز/ ع ب (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے)