1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سعودی عرب اور ترکی شام ميں زمينی کارروائی شروع کر سکتے ہيں‘

عاصم سليم13 فروری 2016

ترک وزير خارجہ نے کہا ہے کہ ترکی اور سعودی عرب کی جانب سے شام ميں سرگرم دہشت گرد تنظيم داعش کے خلاف زمينی کارروائی شروع کی جا سکتی ہے اور اس مقصد کے ليے رياض حکومت اپنے لڑاکا طيارے ترکی روانہ کر رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Huwu
تصویر: Getty Images/AFP/I. Akengin

ترک وزير خارجہ مولود چاووش اوغلو کے بقول اگر اسلامک اسٹيٹ کے خلاف کوئی حکمت عملی سامنے آتی ہے، تو ترکی اور سعودی عرب کی طرف سے شام ميں باقاعدہ زمينی کارروائی شروع کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے يہ بات جرمن شہر ميونخ ميں جاری سکيورٹی کانفرنس ميں شرکت کے بعد کہی۔ ترک اخبارات ’ينی سفق‘ اور ’ہابر ترک‘ نے ہفتہ تيرہ فروری کے روز اس بارے ميں رپورٹ شائع کی ہے۔ انہوں نے مزيد کہا، ’’کچھ لوگ يہ کہہ رہے ہيں کہ ترکی، داعش کے خلاف جاری لڑائی ميں حصہ لينے سے ہچکچا رہا ہے تاہم وہ ترکی ہی ہے، جو سب سے مضبوط تجاويز پيش کر رہا ہے۔‘‘

ترک وزیر خارجہ کے مطابق انقرہ حکومت کی جانب سے ترک فوجی اڈے انجرليک کی جانب لڑاکا طيارے روانہ کيے جا رہے ہيں۔ اگرچہ تاحال يہ واضح نہيں کہ ايسے کتنے جہاز روانہ کيے جا رہے ہيں۔ يہ امر اہم ہے کہ انجرليک کا فوجی بيس داعش کے خلاف برسر پيکار بين الاقوامی اتحاد کا مرکز ہے، جہاں سے امريکا کی قيادت ميں برطانيہ، فرانس اور ديگر ممالک کے لڑاکا طيارے سرحد پار فضائی کارروائيوں کا عمل جاری رکھے ہوئے ہيں۔ رياض حکومت کی جانب سے بری فوج بھيجے جانے کے حوالے سے ايک سوال کے جواب ميں ترک وزير خارجہ نے کہا کہ ’گرچہ اِس کی خواہش ہے تاہم تاحال ايسا کوئی منصوبہ نہيں۔‘

شامی صدر بشار الاسد
شامی صدر بشار الاسدتصویر: Getty Images/AFP/J. Eid

ترک وزير کی جانب سے يہ بيان ايک ايسے وقت سامنے آيا، جب ايک روز قبل ہی شامی صدر بشار الاسد نے نيوز ايجنسی اے ايف پی کو ديے اپنے ايک انٹرويو ميں پورے شام کو دوبارہ اپنے کنٹرول ميں لينے اور دہشت گردی کے خلاف لڑائی جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ اپنے اس انٹرويو ميں اسد نے سعودی اور ترک مداخلت کو خارج از امکان قرار نہيں ديا تھا ليکن يہ اعلان بھی کيا تھا کہ وہ ايسی کسی ممکنہ کارروائی کا جواب ديں گے۔

واضح رہے کہ سعودی عرب کی طرف سے اسی ماہ يہ کہا جا چکا ہے کہ وہ اسلامک اسٹيٹ کے خلاف کسی زمينی کارروائی کا حصہ بننے کے ليے تيار ہے۔ تاہم يہ پہلا موقع ہے کہ کسی اعلیٰ سطحی ترک اہلکار نے عوامی سطح پر اس کا تذکرہ کيا ہے۔

يہ دونوں ممالک شام ميں روسی فضائی حملوں سے بھی شديد نالاں ہيں، جن کے بارے ميں مبصرين کا ماننا ہے کہ وہ اسد افواج کو مضبوط اور اعتدال پسند شامی باغيوں يا اپوزيشن کو کمزور کر رہے ہيں۔ مغربی ممالک بھی شام ميں روسی بمباری کے سبب تشويش کا شکار ہيں۔