سعودی عرب: اہم شیعہ رہنما سمیت سینتالیس افراد کو سزائے موت
2 جنوری 2016نمر النمر کی موت کی سزا کو مؤخر کرنے سے متعلق مسلسل اپیلیں اور مطالبات سامنے آتے رہے تھے۔ سن 2011ء میں عرب اسپرنگ کے موقع پر سعودی عرب میں بسنے والی شیعہ اقلیت نے بھی حکومت مخالف مظاہرے کیے تھے، تاہم سعودی حکومت نے انہیں طاقت کا استعمال کر کے کچل دیا تھا۔ نمرالنمر ان مظاہروں میں پیش پیش تھے۔
قدامت پسند سلطنت سعودی عرب میں عموماﹰ سزائے موت کے منتظر قیدیوں کی سزا پر عمل درآمد ان کے سر قلم کر کے کیا جاتا ہے۔ سعودی عرب میں سن 2003 تا 2006 دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے تعلق کے شبے میں ہزاروں افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔ اس عرصے میں دہشت گردانہ واقعات میں سعودی عرب میں سینکڑوں افراد ہلاک بھی ہوئے تھے۔
تاہم سعودی عرب میں سن 2011 تا 2013ء شیعہ اقلیت بھی حکومت مخالف مظاہروں میں شامل رہی، جب کہ اس دوران متعدد جھڑپوں میں کئی پولیس اہلکار ہلاک ہوئے اور پٹرول بموں سے حملوں کے متعدد واقعات بھی دیکھے گئے تھے۔ ان واقعات میں ملوث ہونے کے الزام میں کئی شیعہ افراد کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔
اس سے قبل خطے میں سعودی عرب کے سب سے اہم حریف ملک ایران نے خبردار کیا تھا کہ نمر کی موت کی سزا پر عمل درآمد نہیں ہونا چاہیے۔
سعودی عرب کے سرکاری ٹی وی چینل پر سزائے موت کی ان اطلاعات کے ساتھ ساتھ دہشت گردانہ حملوں کی تباہ کاریوں اور مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز الشیخ کا ایک پیغام بھی نشر کیا گیا، جس میں انہوں نے قرآنی آیات کے ذریعے ان افراد کو دی جانے والی سزائے موت کا دفاع کیا۔
نئے برس میں سعودی عرب میں قیدیوں کو سزائے موت دیے جانے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ اس سے قبل گزشتہ برس بھی سعودی عرب میں 157 افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔ یہ بات اہم ہے کہ سن 2014ء کے مقابلے میں گزشتہ برس سزائے موت پر عمل درآمد میں واضح اضافہ دیکھا گیا۔ سن 2014ء میں 90 افراد کو سنائی گئی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا تھا۔
حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیمیں سعودی عرب میں سزائے موت دیے جانے پر مسلسل تنقید کرتی آئی ہیں۔ ان تنظیموں کا موقف ہے کہ ملزمان کے خلاف مقدمات کی شفاف طریقے سے کارروائی نہیں کی جاتی اور سعودی عدالتی نظام میں موجود نقائص ملزمان کو اپنے دفاع کا مکمل حق بھی نہیں دیتے۔