1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب:  مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن اور سختیاں جاری

3 اگست 2021

حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق جی 20 کی صدارت ختم ہونے کے بعد سے ہی سعودی حکومت کا مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔ رپورٹ کے مطابق حکومت نے موت کی سزاؤں پر بھی عمل در آمد تیز کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3ySGI
Saudi Arabien Fanny Facsar Reportage
تصویر: DW/M. Neumann Schönwetter

حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے تین اگست منگل کے روز اپنی ایک رپورٹ میں سعودی عرب پر الزام عائد کیا کہ اس نے جی 20 کی صدارت کے خاتمے کے بعد سے مملکت میں مخالفین کے خلاف ''مسلسل کریک ڈاؤن'' شروع کر رکھا ہے۔

سعودی عرب نے گزشتہ برس کے دوران دنیا کے امیر ترین ممالک پر مشتمل عالمی فورم جی 20 کی قیادت کی اور بعض اہم تبدیلیوں کو بھی آگے بڑھایا۔ اس نے دعویٰ کیا تھا کہ اب ملک میں نابالغوں کی سزائے موت ختم کر دی گئی ہے اور سر عام کوڑے مارنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

لیکن لندن میں واقع انسانی حقوق کی عالمی تنظیم نے اپنی رپورٹ میں کہاہے کہ حکام نے، ''مخالفین اور انسانی حقوق کے محافظوں کے خلاف بڑی ڈھٹائی سے ظلم و زیادتیوں کو بڑھا دیا ہے اور گزشتہ چھ ماہ کے دوران موت کی سزاؤں میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔''

سعودی عرب کی جی 20 کی صدارت گزشتہ دسمبر میں ختم ہوئی تھی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کو پتہ چلا ہے کہ اس کے بعد سے ہی مملکت میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی پھانسیوں اور ان کے خلاف خصوصی عدالتی کارروائیوں میں تیزی آئی ہے۔

Jamal Kashoggi
تصویر: Getty Images/M. Al-Shaikh

ایمنسٹی کی تازہ رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں اس برس کے آغاز سے اب تک کم سے کم 40 افراد کو موت کی سزا دی جا چکی ہے۔ ایک اور تنظیم 'دی سعودی ہیومن رائٹس کمیشن' کے مطابق 2020 میں 27 موت کی سزاؤں پر عملدرآمد ہوا تھا، جو اس کے مطابق سن 2019 کے مقابلے میں تقریبا ً 85 فیصد کم تھیں۔

سعودی عدالتوں میں کیا ہوتا ہے؟

محققین کے مطابق سعودی عرب میں جرائم کی خصوصی عدالتیں اب تک 13 انسانی حقوق کے کارکنان کو قصوروار ٹھہرا چکی ہیں۔  ایمنسٹی ان خصوصی عدالتوں کو ایسی عدالت سے تعبیر کرتی ہے جو، ''بڑے پیمانے پر ایک ساتھ ٹرائلز سمیت انصاف کے تقاضوں کی خلاف ورزیوں کے لیے بدنام ہیں۔''

 اس کے مطابق، ''بہت سے معاملات میں تو ملزمین مہینوں تک قید تنہائی میں رہتے ہیں اور انہیں وکلاء تک کی رسائی مہیا نہیں کی جاتی ہے۔''

مشرق وسطی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ڈپٹی ڈائریکٹر لیئن مالوف کہتی ہیں، ''گزشتہ نومبر میں سعودی عرب کی جانب سے جی 20 سربراہی کانفرنس کی میزبانی کے دوران ظلم و جبر میں مختصر سی مہلت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اصلاحات کا کوئی بھی فریب محض پبلک ریلیشن بہتر کرنے کی ایک کوشش ہے۔''

ان کا مزید کہنا تھا کہ مثال کے طور پر، ''ایک شخص نے اپنی ایک ٹویٹ میں سعودی عرب کی معاشی پالیسیوں پر معمول کی نکتہ چینی کی تھی جس کے لیے اسے 20 برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

Saudi-Arabien | Kronprinz Mohammed bin Salman
تصویر: Xinhua/imago images

سعودی عرب میں حالیہ برسوں میں کیا ہوتا رہا ہے؟

سعودی عرب کے حکام نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی اس تازہ رپورٹ پر ابھی تک کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ سن 2018 میں استنبول میں سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے وحشیانہ قتل کے بعد سے ہی مملکت کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی سخت جانچ پڑتال کا سلسلہ جاری ہے۔

سن 2017 میں ولی عہد بننے کے بعد سے ہی، سعودی عرب کے عملاً حکمراں محمد بن سلمان نے تیل پر انحصار کرنے والی معیشت کو متنوع بنانے کی ضرورت سے متاثر ہو کر لبرلائزیشن کی ایک مہم چلا رکھی ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی شہزادہ محمد بن سلمان نے مخالفین اور آزادانہ اظہار خیال کے خلاف بھی زبردست کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں اور کارکن سعودی عرب پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مخالفین کے ساتھ ساتھ صحافیوں اور خواتین کے حقوق کے کارکنان کو نشانہ بنانے کا باقاعدہ الزام لگاتے رہے ہیں۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)

سعودی شہزادے کو خاشقجی کے قتل کی تحقیقات کا سامنا کرنا چاہیے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں