سعودی عرب: ٹوئٹ کرنے پر امریکی شہری کو 16سال قید کی سزا
19 اکتوبر 2022امریکہ نے منگل کے روز کہا کہ اس نے سعودی شاہی مملکت کی مبینہ نکتہ چینی والے ٹوئٹس کرنے پر ایک امریکی شہری کو سعودی عدالت کی جانب سے قید کی سزا سنائے جانے کے معاملے کو ریاض کے سامنے اٹھایا ہے۔
یہ نیا معاملہ دونوں تاریخی اتحادیوں کے مابین حالیہ کشیدگی میں اضافے کا ایک اور سبب بن گیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ سعودی نژاد امریکی شہری سعد ابراہیم المادی کی حراست کی تصدیق کی ہے اور کہا کہ امریکہ نے پیر کے روز اس معاملے کو سعودی حکام کے سامنے اٹھایا۔
المادی کے بیٹے نے بھی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ ان کے والد کو ٹوئٹس کرنے پر 16 برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
انسانی، شہری حقوق کے کئی سرگرم سعودی کارکن تاحال جیلوں میں
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے صحافیوں سے با ت چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ''ہم نے ریاض اور واشنگٹن دونوں چینلوں کے ذریعے سعودی حکومت کے ساتھ اعلیٰ سطحوں پر کیس کے حوالے سے مسلسل اور شدت کے ساتھ اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔''
انہوں نے مزید کہا کہ ''اظہار رائے کی آزادی کا استعمال کبھی بھی مجرمانہ نہیں قرار دیا جانا چاہیے۔''
معاملہ کیا ہے؟
امریکی روزنامے واشنگٹن پوسٹ نے بتایا کہ المادی فلوریڈا میں رہتے ہیں اور وہ اپنے خاندان کے لوگوں سے ملاقات کے لیے نومبر میں سعودی عرب گئے تھے۔ لیکن ہوائی اڈے پر انہیں حراست میں لے لیا گیا۔ المادی پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے پچھلے سات برسوں کے دوران 14 ایسے ٹوئٹس کیے جن میں سعودی مملکت پر نکتہ چینی کی گئی تھی۔
واشنگٹن پوسٹ نے 72 سالہ المادی کے بیٹے ابراہیم کے حوالے سے بتایا کہ ایک سعودی عدالت نے انہیں 3 اکتوبر کو 16 برس قید کی سزا اور مزید 16 برس تک سفری پابندیوں کی سزا سنائی ہے۔
المادی کے بیٹے ابراہیم کا کہنا ہے کہ ان کے والد نے سعودی عرب میں بدعنوانیوں اور صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے 'نہایت نرم لہجے' میں ٹوئٹس کیے تھے۔
ابراہیم نے مزید بتایا کہ ان کے والد کے خلاف دہشت گردی کی حمایت اور مالی معاونت نیز مملکت سعودیہ کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
ٹوئٹر کے سابقہ ملازمین پر سعودی حکومت کے لیے جاسوسی کا الزام
امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ المادی کو سزا سنائے جانے کے وقت عدالت میں کوئی بھی امریکی نمائندہ موجود نہیں تھا کیونکہ سعودی عرب نے مقدمے پر سماعت کے لیے جو تاریخ دی تھی اس سے پہلے کی سماعت شروع کر دی۔
ویدانت پٹیل کا کہنا تھاکہ 13 اکتوبر تک ہمیں سعودی عرب سے کوئی پیغام نہیں ملا تھا۔
امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات میں کشیدگی
واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ سعودی نژاد امریکی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد دونوں ملکوں میں تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے۔ خاشقجی کو استنبول میں سعودی سفارت خانے میں قتل کر دیا گیا تھا۔
حالانکہ اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاملے میں ولی عہد محمد بن سلمان کا دفاع کیا تھا لیکن موجودہ صدر جو بائیڈن نے انٹلی جنس رپورٹوں کی بنیاد پرکہا تھا کہ یہ قتل سعودی ولی عہد کے حکم پر انجام دیا گیا۔ انہوں نے محمد بن سلمان کے ساتھ سخت رویہ اپنانے کا بھی عندیہ دیا تھا۔
تاہم صدر بائیڈن نے جولائی میں سعودی عرب کا دورہ کیا اور ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات بھی کی تاکہ تیل کی بڑھتی قیمتوں کو کم کرنے میں سعودی عرب کی مدد حاصل کی جاسکے۔
لیکن سعودی عرب کی قیادت میں تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک پلس نے 5 اکتوبر کوتیل کی پیداوار میں بڑے پیمانے پر کمی کرنے کا اعلان کردیا، جس سے بائیڈن سخت ناراض ہیں اور انہوں نے سنگین مضمرات کی وارننگ بھی دی ہے۔
جمال کے حقیقی قاتلوں کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے، خدیجہ چنگیز
خیال رہے کہ سعودی عرب پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے مسلسل الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ بلاگر اور انسانی حقوق کے کارکن رائف بداوی کو گزشتہ مارچ تک دس برسوں کی جیل کی سزا کاٹنی پڑی اور انہیں اپنی ویب سائٹ پر مبینہ سعودی مخالف مواد شائع کرنے کے لیے سرعام 50 کوڑے مارے گئے۔
ج ا/ ص ز (اے ایف پی)