1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب میں حکومت مخالف کارکن کا قتل

2 مارچ 2011

سعودی عرب میں انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے علمبردار حلقوں نے خبر دی ہےکہ سعودی حکام نے انٹرنیٹ پر سرگرم ایک کارکن کو گولی مار کر ہلاک کر دیا ہے۔ اس کارکن نے11 مارچ کو ’یوم الغضب‘ منانے پر زور دیا تھا۔

https://p.dw.com/p/10STw
تصویر: picture alliance/dpa

تیونس، مصر اور دیگر عرب ممالک میں جمہوریت اور مزید حقوق کے لیے شروع کی جانے والی تحریکوں میں انٹرنیٹ اور سماجی ویب سائٹس کا بہت بڑا کر دار ہے۔ ان ممالک میں آزادی اظہار کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے عوام نے انٹرنیٹ کا سہارا لیتے ہوئے اپنے پیغام دوسروں تک پہنچائے۔ ریاض حکومت سے نالاں افراد بھی یہی طریقہ استعمال کیے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد نے اطلاع دی ہے کہ ان کے ایک ساتھی کو گولی مار دی گئی ہے۔

27 سالہ فیصل احمد عبدالاحمد احدواس کے بارے میں کہا جاتا ہے کو وہ فیس بک پر’یوم الغضب‘ کے حوالے سے موجود صفحے کے تنہا منتظم تھے۔ فیس بک پر اس گروپ کے 17 ہزار سے زائد ارکان ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ سعودی نظام میں اصلاحات لائی جائیں، سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے، بے روزگاری ختم کی جائے اور اظہار آزادی کو ممکن بنایا جائے۔

König Abdullah Ölpreis Krisengipfel in Dschiddah Saudi Arabien erhöht Liefermenge
ماہرین کہہ رہے ہیں کہ سعودی عرب میں بھی حکومت مخالف مظاہرے شروع ہو سکتے ہیںتصویر: AP

سعودی عرب میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کا کہنا ہےکہ فیصل احمد کو مبینہ طور پر سلامتی کے سرکاری اداروں نے قتل کیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ حکام نےتمام ثبوت مٹا دیے ہیں اور اس جرم پر پردہ ڈالنے کے لیے فیصل کی لاش بھی کہیں چھپا دی ہے۔ سرگرم افراد کا مزید کہنا ہے کہ فیصل کو اس بات کی سزا دی گئی ہے کہ وہ ملک میں تبدیلی کا خواہاں تھا۔

بہرحال ان الزامات کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تیونس، مصر، بحرین اور لیبیا کے بعد سعودی عرب میں بھی احتجاج شروع ہو سکتا ہے۔

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت: امتیاز احمد