سعودی عرب میں وژن 2030 کے عظیم منصوبوں کی تکمیل ممکن؟
6 جولائی 2024سعودی عرب نے جب اپنے وژن 2030 کا اعلان کیا تھا، تو دیکھنے والے ان مجوزہ ترقیاتی منصوبوں کا حجم اور شان و شوکت دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے۔ ان منصوبوں کا مقصد اس خلیجی بادشاہت کا تیل کی آمدنی پر انحصار ختم کر کے متنوع معاشی ذرائع اپنانا ہے۔ ان منصوبوں میں صحرا میں اسکیئنگ کے کھیل کے لیے ڈھلوانوں سے لے کر کھیلوں اور تفریح کے لیے ایک پورے شہر کے قیام اور کم سے کم گاڑیوں کا استعمال کرتے ہوئے صحرا کے وسط میں کاربن گیسوں کے اخراج سے پاک نیوم میگا سٹی کی تعمیر تک سب کچھ شامل ہے۔
وژن 2030 بین الاقوامی سطح پر سعودی عرب کے تشخص کو تبدیل کرنے کے بارے میں بھی تھا۔ اس مذہبی طور پر بہت قدامت پسند ملک میں مختلف منصوبوں کو جدیدیت کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس سلطنت پر ایک آمرانہ شاہی خاندان کی حکومت ہے، جہاں ظاہری طور پر بہت ہی کم سیاسی یا سماجی اختلافات جنم لیتے ہیں۔
تاہم جب سے 2015 میں اس بلند و بالا منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے، تب سے لے کر اب تک چیزیں بہت بدل چکی ہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران سعودی حکومت کے وزراء نے وضاحت کی ہے کہ کس طرح وژن 2030 کا دائرہ کار کم کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ دسمبر میں ملکی وزیر خزانہ محمد الجدعان نے کہا تھا کہ وژن 2030 کے کچھ منصوبے تاخیر کا شکار ہو جائیں گے۔
اپریل میں سعودی دارالحکومت ریاض میں ہونے والے عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس میں الجدعان کا کہنا تھاکہ سعودی عرب خود کو موجودہ حالات کے مطابق ڈھال رہا ہے۔
مثال کے طور پر نیوم شہر کے سب سے اہم ذیلی منصوبوں میں سے ایک صحرا میں آئینہ دار فلک بوس عمارتوں کی ایک بہت بڑی اور چمکدار لکیر کی تعمیر کو دی لائن کا نام دیا گیا ہے۔ اس منصوبے کو اپنے اصل سائز یعنی 170 کلومیٹر کی ایک طویل قوس سے کم کر کے صرف دو کلومیٹر سے کچھ ہی زیادہ کیا جا رہا ہے۔
یہ نیوم منصوبے میں پہلی ایڈجسٹمنٹ نہیں ہے۔ یہ منصوبہ 2030 تک مکمل ہونا تھا لیکن اب اس میں مزید 20 سال لگنے کا امکان ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر اس منصوبے پر تقریباً 500 بلین ڈالر (468 بلین یورو) لاگت آنا تھی لیکن نیوم کا حتمی بجٹ دو ٹریلین ڈالر تک کی لاگت والا ہو سکتا ہے۔
تاخیر اور بجٹ کے مسائل
وژن 2030 کے دیگر پہلو بھی منصوبہ بندی کے تحت آگے نہیں بڑھ پا رہے۔ کچھ زیادہ اہمیت والے منصوبوں کا مقصد غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سعودی عرب کی طرف راغب کرنا تھا لیکن اب اس صحرائی سلطنت کو ایسا کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی سطح پیش گوئی سے کم ہی رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ علاقائی عدم استحکام، جیسے کہ غزہ کی جنگ، اور سعودی ریگولیٹری شفافیت کا فقدان سرمایہ کاروں کو تذبذب کا شکار کر رہا ہے۔ اگرچہ سعودی عرب سے ہمیشہ وژن 2030 کے لیے زیادہ قیمت ادا کرنے کی توقع کی گئی تاہم اب اسے اس منصوبے کے تقریباً سبھی اخراجات ادا کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
اس میں سے زیادہ تر فنڈنگ پبلک انویسٹمنٹ فنڈ یعنی سرمایہ کاری کے لیے سرکاری فنڈ کے ذریعے آتی ہے، جو دنیا کے سب سے بڑے خود مختار مالی فنڈز میں سے ایک ہے اور یہ سعودی عرب کی تیل کی آمدنی سے چلتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تیل کی آمدنی پر انحصار ہی دراصل وژن 2030 پر عملدر آمد کو مشکل میں ڈالتا ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطابق سعودی عرب کو اپنے منصوبوں پر عمل درآمد کرنے کے لیے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت 96 ڈالر فی بیرل کی سطح پر درکار ہے تاہم رواں برس اب تک یہ قیمت 70 سے لے کر 81 ڈالر فی بیرل کے درمیان ہی رہی ہے۔
کیا وژن 2030 واقعی خطرے میں ہے؟
واشنگٹن ڈی سی میں قائم خلیجی عرب ریاستوں کے انسٹیٹیوٹ کے ایک سینئر اسکالر رابرٹ موگیلنکی کہتے ہیں، ''عوامل کے امتزاج کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہیں کہ سعودی عرب کی اقتصادی پالیسیوں میں ایک خاص حد تک رد و بدل ہو رہا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ سعودی حکام کے کچھ حالیہ بیانات بھی اسی رد و بدل کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ان بیانات میں کہا گیا ہے کہ بعض منصوبوں کے لیے نظام الاوقات کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
تاہم موگیلنکی کے بقول ان بیانا ت کو نسبتاً غیر معمولی بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''یہ ایسی چیز ہے جو ہم نے وژن 2030 کے آغاز کے بعد سے نہیں سنی تھی۔‘‘ تاہم اس اسکالر نے یہ دلیل بھی دی، ''وژن 2030 کی حیثیت اتنی شاندار نہیں ہے اور نہ ہی اتنی تباہ کن ہے جتنا کہ بہت سے لوگ بتاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سچ کہیں درمیان میں ہے۔‘‘
وژن 2030 کے کچھ پہلو اچھی طرح کام کر رہے ہیں۔ یو ایس انویسٹمنٹ بینک سٹی گروپ کی فروری کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ افرادی قوت میں خواتین کی شرکت، مقامی لوگوں کو حاصل گھروں کے ملکیتی حقوق میں اضافہ اور تیل کے علاوہ دیگر شعبوں سے حاصل ہونے والی آمدنی جیسی چیزوں میں ''اہم پیش رفت‘‘ ہوئی ہے۔
آئی ایم ایف کے محققین نے اسی ماہ سعودی عرب کے ایک دورے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ملک کی ''بے مثال اقتصادی تبدیلی اچھی طرح سے ترقی کر رہی ہے۔‘‘ انہوں نے وژن 2030 سے جڑے ''اخراجات کی بحالی‘‘ کا بھی خیر مقدم کیا۔
ش ر ⁄ م م (کیتھرین شائر)