سعودی عرب: ولی عہد محمد بن سلمان اب وزیر اعظم بھی بن گئے
28 ستمبر 2022ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، جو پہلے سے ہی سعودی عرب کے حقیقی حکمران سمجھے جاتے ہیں، کو ان کے والد شاہ سلمان نے منگل کے روز ایک شاہی فرمان کے ذریعے وزیر اعظم نامزد کر دیا۔ اس سے قبل تک وہ وزیر دفاع تھے۔
شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اس کے علاوہ اپنے دوسرے بیٹے شہزادہ خالد کو نائب وزیر دفاع سے وزیر دفاع کے عہدے پر مقرر کر دیا ہے۔ شاہ نے اپنے ایک اور بیٹے شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان کو وزیر توانائی کے عہدے پر برقرار رکھا ہے۔
سعودی ولی عہد کی میزبانی کرنے پر فرانس کے صدر تنقید کی زد میں
شاہی خاندان کے ایک اور رکن شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود، جو پہلے اپنی جائے پیدائش جرمنی میں سعودی عرب کے سفیر ہوا کرتے تھے، وہ مطلق العنان بادشاہت میں وزارت خارجہ کے عہدے پر برقرار رکھے گئے ہیں۔
دیگر اعلیٰ عہدوں پر وزیر خزانہ محمد الجدعان اور سرمایہ کاری سے متعلق وزیر خالد الفالح بھی اپنے عہدوں پر برقرار ہیں۔ ان دونوں میں سے کسی کا تعلق شاہی خاندان سے نہیں ہے۔
تازہ شاہی فرمان کے مطابق 86 سالہ شاہ اب بھی سعودی کابینہ کے اجلاسوں کی صدارت کریں گے، جس میں وہ عموماً شرکت کرتے ہیں۔ اس اعلان کے بعد سعودی عرب کے سرکاری ٹی وی نے شاہ سلمان کو منگل کے روز کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے دکھایا۔
سعودی عرب میں خاتون سوشل میڈیا صارف کو 45 سال قید کی سزا
شاہ سلمان نے سن 2015 میں اقتدار سنبھالا تھا تاہم ان کی طبیعت اکثر ناساز رہتی ہے اور حالیہ برسوں میں کئی بار انہیں ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔
محمد بن سلمان کی اپنی شبیہ بہتر کرنے کی کوشش
سعودی عرب کی معیشت اور توانائی کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کے لیے مملکت کے جو ''وژن 2030'' کے منصوبے ہیں، اس لحاظ سے محمد بن سلمان کو ایک اہم اور سرکردہ شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ان کی مسلسل کوشش یہ رہی ہے کہ اپنی شبیہ بہتر کر سکیں۔
بعض شرائط کے ساتھ انہوں نے خواتین کو کار چلانے کی اجازت دینے جیسی سماجی اصلاحات کی بھی کوششیں کی ہیں۔
تاہم ناقدین کے مطابق اصلاحات کی اس مہم میں سعودی عرب نے ابھی صرف معمولی پیش رفت ہی کی ہے اور اس کے برعکس شہری حقوق کے کارکنوں، غیر مذہبی اور بادشاہت سے اختلاف کا اظہار کرنے والے دوسرے افراد کے خلاف مسلسل کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے۔
سن 2018 میں محمد بن سلمان کی ساکھ اس وقت بری طرح داغدار ہو گئی تھی جب ترکی کے شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں ممتاز سعودی صحافی جمال خاشقجی کا قتل کر دیا گیا تھا۔ امریکی خفیہ اداروں کے مطابق ممکنہ طور پر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ہی نے ان کے قتل کی منظوری دی تھی۔
خاشقجی کی موت کے بعد ابتدا میں تو کئی مغربی ممالک نے خود کو مملکت سے الگ کر لیا تھا لیکن فرانس، جرمنی اور امریکہ کے رہنماؤں نے حال ہی میں محمد بن سلمان کے ساتھ بات چیت بھی کی ہے، کیونکہ مغربی ممالک خاص طور پر یورپ کو اب روس کے علاوہ فوسل ایندھن کے لیے دیگر قابل اعتماد ذرائع کی تلاش ہے۔
صدر جو بائیڈن نے ایک بار کہا تھا کہ وہ خاشقجی کے قتل پر سعودی عرب کو ''الگ تھلگ'' کر دیں گے، تاہم انہوں نے بھی مملکت کا دورہ کیا اور ولی عہد سے ملاقات بھی کی۔ انہوں نے دنیا کے سب سے بڑے تیل برآمد کنندہ کے ساتھ تعلقات کی مسلسل اہمیت کو تسلیم کرتے ایسا کیا تھا۔
بائیڈن نے محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات میں خاشقجی کے قتل پر تشویش کا اظہار کیا
گزشتہ ہفتے جرمن چانسلر اولاف شولس خلیجی ریاستوں کے دورے پر گئے تھے، جس میں محمد بن سلمان کے ساتھ بات چیت بھی شامل تھی۔ انہوں نے متبادل گیس اور تیل کی سخت ضرورت کے پیش نظر سعودی عرب میں مشکل سوالات سے گریز کیا تھا جس کے لیے ان جرمنی میں تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔
شولس نے جدہ میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ انہوں نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ ''شہریوں اور انسانی حقوق سے متعلق تمام سوالات پر تبادلہ خیال کیا۔''
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)