1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب ویڈیو گیمنگ انڈسٹری کا عالمی مرکز بننے کی راہ پر

30 جولائی 2023

سلطنت کی جانب سے گیمنگ انڈسٹری میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے ویڈیو گیمز کے بعض پرستار خوش نہیں اور وہ اس کی وجہ انسانی حقوق کے حوالے سے سعودی عرب کی خراب صورتحال کو قرار دیتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4UQO9
Saudi-Arabien | Computerspiele
تصویر: Fayez Nureldine/AFP/Getty Images

فٹ بال کے سب سے بڑے عالمی ستاروں کا نیا گھر اور پیشہ ور گالف کا شریک مالک سعودی عرب اب اربوں ڈالر مالیت کی ویڈیو گیمنگ انڈسٹری کا مرکز بننے کے لیے پرجوش ہے۔

 سعودی خودمختار دولت فنڈ نے گزشتہ ستمبر میں ایک نئے گروپ کے لیے تقریباً 40 بلین ڈالر مختص کیے جس کا مقصد اس اسلامی مملکت کو 2030 تک گیمز اور اسپورٹس کے لیے ایک گلوبل ہب  میں تبدیل کرنا ہے۔

سپورٹس واشنگ کیا ہے؟

 فروری میں سعودی فنڈ نینٹینڈو میں سب سے بڑا بیرونی سرمایہ کار بن گیا اور صرف اس مہینے ریاض حکومت  نے ایک بڑے گیمنگ ٹورنامنٹ کی میزبانی کی جس کی انعامی رقم ریکارڈ 45 ملین ڈالر رکھی گئی۔ اس نے سعودی عرب کو گیمنگ صنعت کا ایک ابھرتا ہوا اہم کھلاڑی بنا دیا ہے۔

Fußball | Al-Nassr FC vs Al-Raed FC
سعودی فٹ کلب عالمی پلئیرز کو اپنے ہاں کھیلنے کے لیے راغب کرنے کے سلسلے میں انتہائی بھاری معاوضے ادا کر رہےہیںتصویر: Victor Fraile/Imago Images

سخت رد عمل

گیمنگ کی دنیا میں ان اقدامات نے اسی قسم کے ردعمل کو جنم دیا ہے جو فٹ بال اور گولف میں سعودی شرکت پر  دیکھا گیا، جہاں ناقدین سعودیوں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگاتے ہیں۔ ان خلاف ورزیوں میں ایک سعودی منحرف واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار جمال خاشقجی کا 2018 میں قتل بھی شامل ہے۔

 اب گیمنگ کے زریعے  دنیا بھر میں آن لائن رہنے والے نوجوانوں کی اکثریتی کمیونٹی اس سلطنت میں شامل ہو رہی ہے، جہاں چند ٹویٹس پر لوگوں کو کئی دہائیوں تک جیل کی سزا سنا دی جاتی ہے۔ نیو یارک یونیورسٹی کے ایک پروفیسر اور ویڈیو گیمز کے کاروبار کے بارے میں ایک کتاب کے مصنف جوسٹ وین ڈریونین نے کہا، "یہ ایک بار پھر رومیوں اور ان کے اکھاڑے کی طرح ہے، جہاں سب سے ذیادہ پیسے والے ممالک اپنی دولت اور طاقت کے اظہار کے لیے کھیلوں کو ایک تھیٹر کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔‘‘  پروفیسر جوسٹ کے مطابق، ''آپ کو سوال پوچھنا ہوگا: اس کے پیچھے معمار کون ہے، اور ان معماروں کے ارادے کیا ہیں؟‘‘

Saudi-Arabien Kronprinz des Königreich Mohammed bin Salman
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان تصویر: IMAGO/Le Pictorium

ویڈیو گیمز کے شوقین ولی عہد

سعودی عرب کے 37 سالہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، جو مبینہ طور پر خود بھی گیمنگ کے شوقین ہیں، گیمنگ کو سعودی عرب کے لیے اپنے اس ویژن 2030 کے ایک حصے کے طور پر دیکھتے ہیں، جو اس سلطنت کی معیشت کو بہتر بنانے، تیل پر اس کا انحصار کم کرنے اور ملک کی نوجوان آبادی کو روزگار اور تفریح ​​فراہم کرنے کا ان کا ایک پرجوش منصوبہ ہے۔ انہوں نے گزشتہ ستمبر میں سیوی گیمز گروپ کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا، ''ہم اپنی معیشت کو متنوع بنانے کے لیے اسپورٹس اور گیمز کے شعبے میں اپنی غیر استعمال شدہ صلاحیت کو بروئے کار لا رہے ہیں۔‘‘

گیمنگ ایک بہت بڑی اور تیزی سے ترقی کرنے والی صنعت ہے۔ مارکیٹ ریسرچ فرم نیو زو کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق 3.2 بلین لوگ پی سی، کنسولز، موبائل ڈیوائسز یا کلاؤڈ گیمنگ سروسز پر گیمز کھیلتے ہیں اور اس انڈسٹری نے 2022 میں 184.4 بلین ڈالر کی آمدنی حاصل کی۔

سعودی عرب کے 700 بلین ڈالر کے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کی ملکیت میں قائم کیے گئے سیوی گروپ کا مقصد گیمنگ انڈسٹری میں 39 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا ہے۔ اسے اگلے سات سالوں میں 250 مقامی کمپنیاں قائم کرنے اور 39,000 ملازمتیں پیدا کرنے کی امید ہے۔

ش ر ⁄  ا ا (اے ایف پی)

سعودی خواتین تیز رفتار ٹرین چلانے لگیں