1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب ڈرائیونگ کرنے پر گرفتار خواتین کو رہا کرے، ایچ آر ڈبلیو

ندیم گِل3 دسمبر 2014

انسانی حقوق کے عالمی ادارے ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے سعودی عرب کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ڈرائیونگ کے ایک مقدمے میں گرفتار دو خواتین کو رہا کرے ۔

https://p.dw.com/p/1DyfU
تصویر: Reuters

ان میں سے ایک خاتون لُوژین الہثلول کو پیر کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ ہمسایہ ملک متحدہ عرب امارات سے گاڑی چلاتے ہوئے سعودی عرب میں داخل ہوئی۔ دوسری خاتون ميساء العمودی بعدازاں متحدہ عرب امارات سے ہی گرفتار خاتون کی حمایت کے لیے سعودی عرب پہنچی تھی تاہم اسے بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

میساء العمودی ایک صحافی ہیں اور وہ الہثلول کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے لیے سعودی عرب پہنچیں۔ ایچ آر ڈبلیو نے ایک بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ سعودی عرب خواتین پر ڈرائیونگ کے لیے عائد پابندی ختم کرے جو تعصب پر مبنی ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف کی کے مطابق خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک کارکن کا کہنا ہے کہ پچیس سالہ الہثلول اور العمودی سعودی عرب کے مشرقی صوبے میں زیرِ حراست ہیں تاہم ان پر ابھی تک مقدمہ قائم نہیں کیا گیا۔ اس کارکن نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی ہے۔

Saudi-Arabien Frau im Auto
سعودی عرب میں خواتین موٹر گاڑی چلانے کی مجاز نہیں ہیںتصویر: picture alliance/dpa

ایچ آر ڈبلیو کا کہنا ہے: ’’بظاہر دونوں خواتین کو ڈرائیونگ کرنے پر حراست میں لیا گیا ہے، اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سعودی حکام انہیں فوری طور پر رہا کریں اور خواتین کے ڈرائیونگ کرنے پر عائد امتیازی پابندی ختم کریں۔‘‘

امریکی شہر نیویارک میں قائم انسانی حقوق کے اس ادارے کی مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لیے ڈائریکٹر سارہ لی وٹسن کا کہنا ہے: ’’خواتین پر عائد بے تکی پابندیوں کے خاتمے کے لیے کیے جانے والے جھوٹے وعدوں کے سالوں بعد، سعودی حکام انہیں آج بھی صرف ڈرائیونگ کرنے کی بنا پر گرفتار کر رہے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا: ’’خواتین کے خلاف سعودی حکومت کی ذلت آمیز پابندیاں ہی ہیں جو ملک کے لیے شرم کا باعث ہیں نہ کہ ان کے حقوق کے لیے کھڑے ہونے والے بہادر کارکن۔‘‘

پیر کو اپنی گرفتاری سے پہلے الہثلول نے مائیکرو بلاگنگ سائٹ ٹوئٹر پر لکھا تھا کہ وہ چوبیس گھنٹے سے سرحد پر پھنسی ہوئی ہیں اور متحدہ عرب امارات سے سعودی عرب میں داخل ہونے کا انتظار کر رہی ہیں۔

سعودی عرب کی وزارتِ داخلہ نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا۔ رواں برس اکتوبر میں درجنوں عورتوں نے سعودی عرب میں کاریں ڈرائیو کرتے ہوئے اپنی تصاویر سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر پوسٹ کی تھیں۔