1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب کو مغربی تنقید کیوں برداشت نہیں؟

8 اگست 2018

انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے ٹویٹ کرنے پر سعودی عرب نے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔ ماہرین کے مطابق یہ سعودی اقدام ناقدین کو خاموش کرانے اور ریاض کی طرف سے اپنا اختیارا منوانے کی کوشش ہے۔

https://p.dw.com/p/32pcc
تصویر: picture-alliance/dpa/Saudi Press Agency

سعودی عرب نے کینیڈا کی وزیر خارجہ کی اس ٹوئٹ کو ملکی داخلی معاملات میں حد سے زیادہ مداخلت قرار دیا تھا، جس میں انہوں نے انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ اور یہیں سے ان دونوں ملکوں کے مابین سفارتی تنازعے کی ابتدا بھی ہوئی۔

متعدد عرب ریاستوں نے اس سعودی موقف کی تائید کی ہے، جن میں بحرین، مصر اور متحدہ عرب امارات بھی شامل ہیں۔

Kanadische Außenministerin Chrystia Freeland
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press

مشرق وسطی امور کے ایک جرمن ماہر گیڈو شٹائن برگ نے  ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کینیڈا کی وزارت خارجہ کی ٹوئٹ پر سعودی عرب کے اس جارحانہ رد عمل کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں، ’’ایک تو سعودی قیادت خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہی ہے اور وہ تھوڑی جنونی بھی دکھائی دے رہی ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسا بھی لگ رہا ہے کہ سعودی اب مغربی ممالک کی تنقید سے بیزار ہو چکے ہیں۔

گیڈو شٹائن برگ کہتے ہیں کہ سعودی عرب کینیڈا کو مثال بنا کر دیگر مغربی ممالک کو بتانا چاہتا ہے کہ ان کی داخلی پالیسیوں پر تنقید نا قابل قبول ہے، ’’عین ممکن ہے کہ ان اقدامات کا مقصد یہ اشارہ دینا بھی ہو کہ اب ہم مزید برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘ شٹائن برگ کے بقول سعودی عرب کو یہ علم ہے کہ وہ ایک اہم ملک ہے۔

دوسری جانب یونیورسٹی مائنز سے وابستہ گنٹر مائر کے مطابق سعودی ولی عہد بن سلمان عوام کے سامنے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت کی خارجہ پالیسیاں بہت موثر ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شام میں سعودی عرب جن باغیوں کو تعاون فراہم کر رہا تھا وہ جنگ ہار چکے ہیں اور اس کے علاوہ یمن میں سعودی فوجیں ایک مہنگی ترین جنگ میں مصروف ہیں، ’’محمد بن سلمان اپنی خارجہ پالیسی میں کمزور ہو چکے ہیں اور اس صورت میں کینیڈا کی سخت تنقید برداشت کرنا انہیں مزید کمزور کر دے گا۔‘‘