سعودی ناکہ بندی بڑا دھچکا تھی، مگر قطر پھر بھی کامیاب رہا
8 جنوری 2019قطر کی معیشت آج پھر سے ترقی کر رہی ہے اور قطری حکمران اپنے ملک کی زمینی، فضائی، بحری اور تجارتی ناکہ بندی کے باوجود اس خلیجی امارت کو دوبارہ اچھی طرح اس کے پاؤں پر کھڑا کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ آج اگر کوئی قطر میں کسی سے یہ پوچھے کہ اس ناکہ بندی اور بحران کا کیا بنا، تو سوال پوچھنے والا یہ سن کر حیران رہ جاتا ہے، ’’کون سا بحران؟‘‘
سعودی عرب کی قیادت میں قطر کی ناکہ بندی کے بعد اس عرب ریاست میں شروع کے چند ہفتوں میں تو کافی بحرانی حالات پیدا ہو گئے تھے۔ لوگ خوف زدہ تھے، ملکی اقتصادی منڈی تقریباﹰ دہشت زدہ تھی اور سپر مارکیٹوں میں کھانے پینے کی اشیاء تک نظر آنا بند ہو گئی تھیں۔
پابندیوں کا توڑ
اس پس منظر میں قطر کے ایک مقامی پولیس اہلکار کے ساتھ دوحہ کی ایک سپر مارکیٹ میں ہونے والی ایک حالیہ ملاقات کے دوران جب اس سے یہ پوچھا گیا کہ اب حالات کیسے ہیں، تو اس نے کہا، ’’میرے ساتھ آئیے۔‘‘ یہ قطری شہری اس سپر مارکیٹ میں سبزی خریدنے آیا تھا۔ اس نے مجھے چند قدم آگے تک اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔
دوحہ کی باقی تمام مارکیٹوں کی طرح یہ سپر مارکیٹ بھی طرح طرح کی تازہ سبزیوں، پھلوں اور اشیائے خوراک سے بھری ہوئی تھی۔ اس نے کہا، ’’یہ جو آپ کو دودھ کی بوتلوں اور پنیر کے پیکٹوں سے بھری ہوئی شیلفیں نظر آ رہی ہیں، یہ سب کچھ ایک ایسے مکمل طور پر ایئر کنڈیشنڈ فارم ہاؤس میں تیار کیا گیا ہے، جو دوحہ شہر سے 60 کلومیٹر دور ہے۔‘‘
ناصر علی نامی اس قطری پولیس اہلکار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اگر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکام یہ سب مصنوعات اپنی فضائی حدود سے ہو کر ہمارے ملک تک آنے کی اجازت نہیں دیتے، تو کیا ہوا؟ ہم نے ان کی پیداوار مقامی طور پر شروع کر دی ہے۔‘‘ ناصر علی نے مزید کہا، ’’اب ایک بار پھر دنیا کی کوئی ایسی چیز نہیں ہے، جو آپ قطر میں خرید نہیں سکتے۔‘‘
تنازعے کی ابتدا
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور بحرین نے قطر کے ساتھ ہر طرح کے رابطے منقطع کرتے ہوئےاس ملک کی ناکہ بندی جون 2017ء میں شروع کی تھی اور الزام یہ لگایا تھا کہ دوحہ حکومت مبینہ طور پر دہشت گردی کی حمایت اور سرپرستی کر رہی تھی۔ اس سے مراد تب قطر کے ایران کے ساتھ وہ تعلقات بھی تھے، جن میں بتدریج بہتری آتی جا رہی تھی اور وہابی مکتبہ فکر کے مسلمانوں کی اکثریت والے سعودی عرب کے حکمرانوں کی شیعہ اکثریتی آبادی والے ایران کے ساتھ شدید رقابت اور باہمی مخالفت تو عشروں سے چلی ہی آ رہی تھی۔
ان پابندیوں کے ذریعے ریاض حکومت اور اس کے اتحادی قطر کو اس بات پر بھی مجبور کرنا چاہتے تھے کہ وہ اخوان المسلمون نامی اس تنظیم کی حمایت بند کر دے، جسے یہی ممالک ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔ ساتھ ہی قطر حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا تھا کہ وہ اسلام پسندوں کی ہر طرح کی تائید و حمایت ختم کر دے اور قطر کے بین الاقوامی نشریاتی ادارے الجزیرہ کو بھی بند کر دے۔
دوحہ کا انکار
اپنے خلاف یکدم اتنے زیادہ اور شدید الزامات لگائے جانے پر قطر کا جواب یہ تھا کہ وہ دہشت گردی کی کوئی حمایت نہیں کر رہا اور اپنی ناکہ بندی کرنے والے عرب ممالک کی دیگر شرائط بھی پوری نہیں کرے گا، جو ’سرے سے ہی ناانصافی‘ پر مبنی ہیں۔
جون دو ہزار سترہ سے لے کر اب تک قطر نے اس بارے میں اپنی صلاحیتوں میں بہت اضافہ کر لیا ہے کہ وہ اس اجتماعی ناکہ بندی کے فوری اور بہت تکلیف دہ اثرات کا بھرپور ازالہ بھی کر سکے۔ قطر خود کو ان بحرانی حالات کے باوجود اتنا مضبوط بنا لے گا، یہ قطر کے ہمسایہ اور مخالف ممالک نے سوچا بھی نہیں تھا۔
بھرا ہوا سرکاری خزانہ
اس بحران نے قطری حکمرانوں اور عوام کو یہ احساس بھی دلایا کہ سعودی عرب دراصل بہت طویل عرصے تک دوحہ کے شانہ بشانہ کھڑا ہو کر اسے یہ بتانے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ دوحہ کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔ اس نئی قومی خود اعتمادی میں اس خلیجی ریاست کے بھرے ہوئے سرکاری خزانے نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
قطر کے پاس تیل کی دولت بھی بہت ہے اور اس کے پاس قدرتی گیس کے ذخائر بھی دنیا میں اپنی نوعیت کے تیسرے سب سے بڑے ذخائر ہیں۔ اپنے خلاف بائیکاٹ شروع کیے جانے کے بعد دوحہ حکومت نے سینکڑوں ارب ڈالر کے برابر سرکاری وسائل اس بحران کے اقتصادی اثرات کے ازالے کے لیے استعمال کیے۔
قطر کے لیے ایسا کرنا اس وجہ سے بھی ممکن ہو گیا تھا کہ ان پابندیوں کے آغاز سے پہلے بھی کئی بار قطر کو یہ منفرد حیثیت حاصل رہی تھی کہ یہ دنیا کا سب سے زیادہ فی کس سالانہ آمدنی والا ملک تھا۔
بڑے منفی اثرات
قطر کی ناکہ بندی کے بڑے منفی نتائج یہ رہے تھے کہ وہاں املاک کی قیمتوں میں یکدم بہت کمی ہو گئی تھی۔ قومی فضائی کمپنی قطر ایئرویز کو شدید خسارہ ہونے لگا تھا اور اس ملک کا رخ کرنے والے غیر ملکی سیاحوں کی تعداد بھی بہت کم رہ گئی تھی۔ لیکن آج ان پابندیوں کے قریب ڈیڑھ برس بعد ان جملہ منفی حقائق کا تقریباﹰ کہیں کوئی نشان نہیں ملتا۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کے مطابق قطر کی معیشت دوبارہ ترقی کر رہی ہے اور ابھی دسمبر 2018ء میں ہی بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی ایس اینڈ پی نے قطر کے لیے اپنی ریٹنگ بدل کے ’منفی‘ سے دوبارہ ’مستحکم‘ کر دی تھی۔
قطر میں مقامی شہریوں کی تعداد صرف تین لاکھ
قطر کا شمار خلیج کے ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں مقامی آبادی میں بیرون ملک سے آنے والے مہمان کارکنوں کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ کئی لوگوں کے لیے یہ بات حیران کن ہو گی کہ قطر میں رہنے والے ہر نو افراد میں سے صرف ایک اس ریاست کا شہری بھی ہے۔ اوسطاﹰ ہر نو میں سے باقی آٹھ وہاں رہائش پذیر غیر ملکی ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قطر کی مجموعی طور پر صرف قریب 2.7 ملین (ستائیس لاکھ) کی آبادی میں مقامی شہریت کے حامل باشندوں کی تعداد محض تین لاکھ ہے۔
قطر میں تعینات امریکا کے فوجی دستوں کی تعداد بھی 10 ہزار کے قریب ہے۔ دوحہ حکومت خطے میں واشنگٹن کی بہت اہم اتحادی ہے اور امریکا کا خلیج کے علاقے میں سب سے بڑا فوجی اڈہ بھی قطر ہی میں ہے۔
تنازعہ شدید نہیں ہوا لیکن فاصلے بڑھ گئے
قطر کا سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ تنازعہ گزشتہ قریب ڈیڑھ برس سے مزید شدید تو نہیں ہوا لیکن اس دوران فریقین کے مابین فاصلے مزید بڑھ چکے ہیں۔ قطر نے اگر اس تنازعے میں ریاض حکومت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا اور پھر اپنے اس فیصلے کو اچھا فیصلہ بھی ثابت کیا، تو اس کا سہرا قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی کے سر جاتا ہے۔
اوپیک سے اخراج کا فیصلہ
گزشتہ برس قطر نے تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک سے اپنے اخراج کا فیصلہ بھی کر لیا تھا۔ سرکاری طور پر دوحہ نے اس کی وجہ یہ بتائی تھی کہ قطر ویسے بھی اوپیک کا سب سے چھوٹا رکن ملک تھا اور اب اپنے ہاں قدرتی گیس کی پیداوار اور برآمد پر زیادہ توجہ دینا چاہتا ہے۔
اس کے برعکس کئی تجزیہ نگاروں کے بقول دوحہ نے اوپیک میں اپنی رکنیت ختم کرنے کا فیصلہ اس وجہ سے بھی کیا کہ قطر کا یہ اقدام بھی ایک احتجاج تھا، اوپیک پر تیل برآمد کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ملک کے طور پر سعودی عرب کے غلبے کے خلاف۔