سلمان تاثیر کا قتل، ملا جلا ردعمل
6 جنوری 2011مقتول گورنر کے قتل کے الزام میں گرفتار ہونے والے پنجاب پولیس کی ایلیٹ فورس کے اہلکار ممتاز حسین قادری کو جب کمرہ عدالت میں پیش کیا گیا تو اس موقع پر ان کےحامی کئی وکلاء وہاں پر موجود تھے۔ ان حامیوں نے نہ صرف اللہ اکبر کے نعرے بلند کئے بلکہ ان پر پھولوں کی پتیاں بھی نچھاور کی۔
عدالت میں تین سو وکلاء نے ممتاز حسین قادری کے مقدمے کی پیروری بغیر فیس کے کرنے کے درخواست دی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ناموس رسالت کے قانون کو مذہبی انتہا پسندوں کے ساتھ ساتھ سیاستدان بھی اپنے ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کی 95 فیصد آبادی مسلمان ہے اور اکثریت اس قانون کی حمایت کرتی ہے۔ تاہم سلمان تاثیر کے قتل پر لوگوں کا رد عمل ملا جلا رہا۔
اسلام آباد میں مقیم ایک مزدور یونین کے رہنما عمر زمان مغل ک کہنا ہے:’’میرے ایمان اور سوچ کے مطابق پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کرنے والے کسی بھی شخص کو زندہ نہیں رہنا چاہیے۔‘‘
کوئٹہ میں کپڑے کا کاروبار کرنے والے ارشاد احمد کا کہنا ہے کہ گورنر تاثیر کی موت ایک ’واضح قتل‘ ہے۔ ان کا کہنا تھا:’’ان کا قتل ایک غلط فعل ہے۔ اگر انہوں نے کوئی غلط کام کیا تھا تو ان کے خلاف مقدمہ دائر کیا جانا چاہیے۔ لیکن کسی کا قتل کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔‘‘ کئی پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ ناموس رسالت کے قانون کے حوالے سے وہ سلمان تاثیر کی رائے کی مخالفت کرتے ہیں۔ لیکن ان کا قتل کیا جانا بھی ایک غلط فعل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت ملک میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے میں ناکام ہو چکی ہے۔
ایک اسکول ٹیچر امان خانچی کا کہنا ہے کہ اس قتل سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں رواداری اور برداشت ختم ہو چکی ہے۔ ان کے مطابق اگر ہر کوئی خود ہی جج بن جائے گا تو یہ ملک کیسے چلے گا۔؟
طالبان کے حامی مولوی طاہر محمود اشرفی نے گورنر تاثیر کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قانون خدائی نہیں ہے بلکہ انسانوں کا بنایا ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قانون سے انتہا پسندی میں اضافہ ہوا ہے جو کہ ایک معاشرے کے لئے نقصان دہ ہے۔ پاکستان کے مشہور مذہبی سکالر جاوید غامدی بھی اس قتل کی مذمت کرتے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ غامدی ناموس رسالت قانون کے مخالف ہیں۔
سلمان تاثیر نے جب جیل جا کرموت کی سزا کی منتظر عیسائی خاتون آسیہ بی بی سے ملاقات کی اور بعد میں ان کی معافی کی کوششیں کیں تو مذہبی جماعتوں نے اس رویے پر کھل کر تنقید کی اور پاکستانی میڈیا نے گورنر کے اس کردار کی غیر معمولی انداز میں تشہیر کی تھی۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: عابد حسین