عام طور پر ڈپریشن میں افسردگی، سستی اور مایوسی ہو سکتی ہے۔ ڈپریشن کا سامنا کرنے والا کوئی شخص بلاشبہ ان چیزوں کو محسوس کر سکتا ہے ’سمائل ڈپریشن‘ ایک ایسی اصطلاح ہے اور یہ ان لوگوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جو بظاہر بلکل نارمل ہو لیکن اس کے باطن میں ایک طوفان برپا ہو۔ ان کی سماجی زندگی عام طور پر پرسکون ہوتی ہے لیکن اندر ہی اندر مسلسل مایوسی اور اداسی سے لڑ رہے ہوتے ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ یہ ڈپریشن ہے کیا اور ایسا شخص کسی دوسرے شخص سے کیسے مختلف ہو سکتا ہے؟
ڈپریشن ہر انسان کو مختلف طریقے سے متاثر کرتا ہے۔ اس کی بھی ہر بیماری کی طرح مختلف علامات ہوتی ہیں جن میں سب سے عام، گہری اور طویل اداسی ہے۔ دیگر علامات میں بھوک اور وزن میں کمی یا زیادتی، مسلسل تھکاوٹ یا سستی، نا امیدی، خود اعتمادی کی کمی اور روز مرہ کی ان چیزوں کو کرنے میں عدم دلچسپی جن سے کبھی آپ لطف اندوز ہوتے تھے۔ 'سمائل ڈپریشن‘ کا شکار کوئی شخص مذکورہ بالا میں سے کچھ علامات یا سبھی کا تجربہ کر سکتا ہے۔
سمائل ڈپریشن کا شکار شخص بظاہر تو نارمل شخص کے طور پر نظر آئے گا، ساتھ ہی ساتھ اس کے سماجی اور خاندانی زندگی بھی کافی صحت مند نظر آئے گی۔ لیکن درحقیقت یہ لوگ اپنے اندر ہی ایک جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں۔ ان افراد کو ایسا لگتا ہے کہ ڈپریشن کی علامات ظاہر کرنا کمزوری کی علامت ہے۔ اگر وہ کسی سے اپنے جذبات کا اظہار یا ذہنی حالت کے بارے بیان کریں گے تو وہ اس پر بوجھ ڈال رہے ہوں گے۔ ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو لوگوں سے اپنے دل کی بات کہنے سے گھبراتے ہوں گے۔ ایسے لوگ سارا وقت خود کو تسلی دیتے رہتے ہیں کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہیں ہی نہیں اور وہ بہت جلد اس کیفیت سے باہر نکل آئیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ایسے لوگ دوسرے لوگوں کی زندگیوں کے مسائل کو دیکھتے ہوئے یہ سوچ بھی اپناتے ہیں کہ وہ ایک بہتر زندگی گزار رہے ہیں اور دیگر لوگ اس سے بھی ابتر زندگی گزار رہے ہیں اور یہ کہ شاید وہ اپنی زندگی کے مثبت پہلو سہی سے دیکھ نہیں پا رہے۔
ڈپریشن کی ایک عام علامت ناقابل یقین حد تک کم توانائی کا ہونا ہے اور صبح کے وقت بستر سے اٹھنا بھی مشکل لگتا ہے تاہم سمائل ڈپریشن کے شکار لوگوں میں توانائی کی سطح متاثر نہیں ہوسکتی ہے۔ تنہا ہی اس مسئلے کا مسلسل سامنا کرنے کے باعث سمائل ڈپریشن کے شکار لوگوں میں خود کشی کا رجحان زیادہ ہو سکتا ہے۔ اسی لیے اکثر لوگوں کے ایسا قدم اٹھانے پر یہ سننے میں آتا ہے کہ اچھا خاصا ہنستا مسکراتا انسان تھا نہ جانے خود کشی کی کیا سوجھی۔ جبکہ ان لوگوں میں عام ڈپریشن کے شکار لوگوں کے مقابلے میں ایسا انتہائی قدم اٹھانے کی تحریک زیادہ ہوتی ہے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ڈپریشن کی اس قسم کے شکار کس قسم کے لوگ زیادہ ہو سکتے ہیں؟ اس میں سب سے پہلے تو وہ لوگ آتے ہیں جن کی زندگی میں اچانک کوئی بہت بڑی تبدیلی آ گئی جیسے کسی بہت ہی قریبی عزیز کی وفات، نوکری کا چلے جانا، تعلقات میں ناکامی وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے بعد وہ لوگ اس کا شکار سب سے زیادہ ہوتے ہیں جو معاشرتی یا ثقافتی طور پر اپنے ہونے کی لڑائی لڑ رہے ہوتے ہیں۔ بعض صورتوں میں خاندانی بدنامی یا کسی بڑے واقعے سے خاندان کا منسوب ہونا بھی اس کی وجہ بنتا ہے۔ بعض اوقات حد سے بڑھی ہوئی امیدیں بھی اس کو جنم دیتی ہیں۔ ایسی امیدیں کسی سے بھی ہو سکتی ہیں، ساتھ کام کرنے والے لوگوں سے، اپنے بچوں سے، اپنے بہن بھائیوں سے یا پھر خود سے ہی۔
بحرحال موجودہ دور میں اس کی ایک اہم وجہ سوشل میڈیا بھی ہے۔ کیونکہ سوشل میڈیا پر ہماری زندگی کا ایک ایک لمحہ دوسروں سے شئیر ہو رہا ہوتا ہے۔ اس لیے ہم ایک متبادل حقیقت کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ جس کے مطابق ہم دوسروں کی زندگیوں اور ان کو حاصل آسائشوں سے متاثر ہوتے ہیں اور خود کو بھی ایک ایسی صورتحال، جس کا حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا لیکن ہم اسے اپنی حقیقی دنیا کی طرح ہی دکھاتے ہیں۔ حقیقت اور سوشل میڈیا پر دکھائی دینے والی اس سچوئیشن کے فرق کی وجہ سے سمائل ڈپریشن وجود میں آتا ہے اور اتنا بڑھ جاتا ہے کہ کچھ کیسز میں اس پر قابو پانا ناممکن ہے۔
اس کی شناخت کے لیے گہرے جائزے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اس کی علامات میں ناامیدی، مزاج کا یک دم بدل جانا، جو چیزیں دلچسپ محسوس ہوتی ہوں ان میں عدم دلچسپی وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن یہ یاد رہے کہ یہ لوگ ظاہری طور پر بھر پور زندگی جیتے نظر آتے ہیں۔ ان لوگوں کا یہ ماننا ہوتا ہے کہ جو ہو رہا ہے اس سے برا بھی ہو سکتا تھا، مگر نہیں ہوا، اس لیے یہ لوگ خوش نظر آتے ہیں۔
اگر کوئی ایسا شخص آپ کے ارد گرد ہے تو اس کو اس کی حالت سے باہر آنے میں مدد کریں۔ بعض اوقات کسی کا ہمدردانہ رویے کے ساتھ حال دل سن لینا ہی اس کی دوا بن سکتا ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔