1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سمندروں میں پلاسٹک کے کوڑے کا مسئلہ: ریسرچرز کا انوکھا خیال

علی کیفی
14 اکتوبر 2016

ریسرچرز نے سمندروں میں پلاسٹک کے کوڑے کرکٹ سے نمٹنے کے لیے لکڑی کے چھوٹے چھوٹے بلاک پانی میں پھینکنے اور اس مسئلے کے حل میں عوام کا تعاون حاصل کرنے کا ایک انوکھا منصوبہ شروع کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2RDqe
Plastikmüll im Meer Drifters
تصویر: Rosanna Schöneich-Argent

دنیا بھر میں ہر سال تیار ہونے والے تین سو ملین ٹن پلاسٹک کی دَس فیصد مقدار کوڑے کرکٹ کی شکل میں سمندروں میں پہنچ جاتی ہے۔ پلاسٹک کے تھیلے یا پھر کاروں کے ٹائروں کے ربڑ کی گرد اُڑ کر سمندروں تک پہنچ جاتی ہے۔

جرمنی کی ’یونیورسٹی آف اولڈن برگ‘ کے محققوں کے انوکھے منصوبے میں پلاسٹک کے کوڑے کی جگہ چوبی بلاک استعمال کرنے کا مقصد یہ پتہ چلانا ہے کہ پلاسکٹ کا کوڑا کرکٹ کہاں سے آتا ہے اور پانی میں اس کے بہاؤ کی نوعیت کیسی ہوتی ہے۔

مختلف موٹائی کے حامل آٹھ سو چھوٹے چھوٹے چوبی بلاک جرمن ساحلوں سے بحیرہٴ شمالی میں چھوڑے گئے ہیں۔ ہر ایک پر ایک پیغام لکھا ہے کہ جس کسی کو بھی جہاں بھی یہ چوبی بلاک ملیں، وہ براہِ مہربانی ایک مخصوص ویب سائٹ کو اس بلاک کے ملنے کے مقام اور وقت سے مطلع کرے۔

Rosanna Schöneich-Argent Wissenschaftlerin
پی اپچ ڈی کی طالبہ روزانا شوئنائش آرگینٹتصویر: Sibet Riexinger

2018ء تک جاری رہنے والے اس منصوبے کے دوران مجموعی طور پر ایک لاکھ چوبی بلاک چَودہ مختلف مقامات سے دریاؤں اور سمندروں میں چھوڑے جائیں گے۔

Deutschland Florian Hahner Wissenschaftler
جرمن محقق فلوریان ہاہنرتصویر: Privat

پی اپچ ڈی کی طالبہ روزانا شوئنائش آرگینٹ اور فلوریان ہاہنر اس منصوبے کے روحِ رواں ہیں۔ ڈی ڈبلیو کی میلانی ہال سے گفتگو کرتے ہوئے روزانا شوئنائش آرگینٹ نے کہا: ’’ہر چوبی بلاک کو ایک نمبر دیا گیا ہے۔ جیسے جیسے کسی کو یہ بلاک ملتے جاتے ہیں، ویسے ویسے ہم درج کرتے چلے جاتے ہیں کہ فلاں بلاک کہاں اور کس وقت ملا۔ کسی ایک مقام پر بہت سے چوبی بلاک ایک ساتھ ملنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ موجیں اور ہوا کا رُخ اُنہیں دھکیل کر وہاں لے گئے ہیں۔ پھر محققین موقع پر جا کر جانچ پڑتال کرتے ہیں کہ آیا وہاں پلاسٹک کا کوڑا بھی جمع ہے۔ ایسا ہو تو پھر یہ پتہ چلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ کوڑا آیا کہاں سے ہے۔ پھر ذمہ داروں کے ساتھ جا کر مسئلے کے حل پر بات کی جاتی ہے۔‘‘

فلوریان ہاہنر نے بتایا کہ کئی فیکٹریاں بھی اس منصوبے میں تعاون کر رہی ہیں: ’’پلاسٹک بُری چیز نہیں ہے۔ ہم لوگوں کو بس یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ استعمال کے بعد اسے پھینکیں نہیں بلکہ دوبارہ استعمال میں لائیں۔‘‘

فلوریان ہاہنر کے مطابق پانی میں پلاسٹک کی ایک بوتل کی باقیات اندازاً ساڑھے چار سو سال تک موجود رہ سکتی ہیں۔ پلاسٹک کا کُوڑا باریک سے باریک تر ذرات میں بدل کر سمندری حیات کی خوراک بنتا ہے اور نہ صرف مچھلیوں اور دیگر سمندری جانداروں کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ بالآخر خود انسانی صحت کے لیے بھی مُضر ثابت ہو سکتا ہے۔