سمندروں میں پلاسٹک کے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر
1 اگست 2010اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پلاسٹک کے گل سڑ کر ختم ہونے کا عمل کہیں ساڑھے چار سو برس میں جا کر مکمل ہوتا ہے۔ ہماری زمین کے خشکی پر مشتمل حصے پر تو ہر طرف پلاسٹک مصنوعات کا کوڑا کرکٹ نظر آتا ہی ہے لیکن اب عالمی سمندروں میں بھی پلاسٹک کے کوڑا کرکٹ کے بڑے بڑے ڈھیر تیرتے نظر آنے لگے ہیں۔
حال ہی میں ایک مالدار برطانوی شہری نے ایک انوکھی مہم کے ذریعے سمندروں میں اِس کوڑے کرکٹ کی طرف توجہ دلانے کی ایک کامیاب کوشش کی۔ اس مہم کے سربراہ اور تحفظ ماحول کے لئے سرگرم کارکن ڈیوڈ ڈی روتھ شِلڈ نے مکمل طور پر پلاسٹک کی بوتلوں سے بنائی گئی ایک کشتی کے ذریعے بحرالکاہل عبور کیا۔
اِس کشتی نے، جسے ’پلاسٹیکی‘ کا نام دیا گیا تھا، اپنے سفر کا آغاز اس سال مارچ میں امریکی شہر سان فرانسسکو سے کیا تھا۔ یہ کشتی چار مہینے کے بحری سفر کے بعد بحرالکاہل کو عبور کرتے ہوئے پیر 26 جولائی کو بالآخر آسٹریلیا پہنچ گئی۔ جب یہ کشتی پندرہ ہزار کلومیٹر کا سفر مکمل کر کے سڈنی پہنچی، تو ہزاروں افراد نے کشتی کی چھ رکنی ٹیم کا پرجوش استقبال کیا۔
ڈیوڈ ڈی روتھ شِلڈ نے، جو برطانیہ کے ایک بینکار کے بیٹے ہیں، اِس موقع پر کہا کہ اُنہیں خوشی کے مارے اپنیکامیابی کا یقین نہیں آ رہا:’’ظاہر ہے یہاں پہنچ جانے کا احساس بہت ہی خوش کن ہے۔ ہمیں اِس سفر کی تیاری میں چار برس لگے جبکہ ہم نے چار مہینے کھلے سمندر میں گزارے۔‘‘
یہ کشتی تین سال کے عرصے میں پلاسٹک کی ساڑھے بارہ ہزار خالی بوتلوں کو شکر اور کاجو سے تیار شُدہ ماحول دوست گوند کی مدد سے آپس میں چپکا کر بنائی گئی تھی۔ اس کشتی کی تیاری اور اس مہم کا مقصد صرف ایک ایڈونچر نہیں تھا بلکہ لوگوں میں اِس بات کی آگاہی پیدا کرنا تھا کہ بڑے پیمانے پر پلاسٹک کی آلودگی سے سمندروں کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ ڈیوڈ ڈی روتھ شِلڈ نے بتایا:’’اصل سخت کام اب شروع ہو گا۔ ہم لوگوں کی توجہ اِس جانب دلانا چاہتے ہیں کہ سمندروں کو پلاسٹک کے کوڑے کرکٹ کے گمبھیر مسئلے کا سامنا ہے۔ کاش مَیں آج یہاں کھڑے ہو کر یہ کہہ سکتا کہ ہم نے یہ مسئلہ حل کر لیا ہے لیکن افسوس کہ ابھی ہم اِس منزل سے بہت ہی دُور ہیں۔‘‘
دُنیا بھر میں سالانہ 240 ملین ٹن پلاسٹک تیار ہوتا ہے تاہم اِس سے پیدا ہونے والے کوڑے کو ری سائیکل کر کے دوبارہ قابلِ استعمال بنانے کی بجائے یہ کوڑا ٹنوں کے حساب سے سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے۔ اس کشتی پر سفر کے دوران اِس پر موجود چھ رُکنی عملے نے شمسی سیلوں، ہوا کی مدد سے چلنے والی ٹربائن اور سائیکل کی مدد سے چلنے والے جینریٹرز کے ذریعےبجلی حاصل کی۔
رپورٹ : امجد علی
ادارت : افسر اعوان