سمندروں کا عالمی دن، نیلے پانیوں کو بچانے کی نئی کوشش
شاید کم لوگ ہی جانتے ہوں کہ اس کرہ ارض پر صحت مندانہ زندگی بسر کرنے کی خاطر صاف و شفاف سمندروں کی اہمیت کس قدر زیادہ ہے۔ سمندروں کا صاف پانی حیاتیاتی تنوع اور ایکو سسٹم کو اصل حالت میں برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے۔
نیلے پانیوں کو محفوظ بنائیں
عہد کیا گیا ہے کہ 2030ء تک سمندروں کو تیس فیصد تک زیادہ محفوظ بنایا جائے۔ اس مقصد کے تحت نا صرف سمندری حیات کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا جو خشکی پر بسنے والی حیات کے مقابلے میں تین گنا زیادہ خطرے کا شکار ہے بلکہ آبی حیات کو درپیش خطرات سے نمٹنے کی کوشش کی جائے گی۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت سمندری پانیوں میں آکسیجن کی مطلوبہ مقدار کم کر رہا ہے اور کورل ریفز یعنی مونگے کی چٹانوں کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔
سمندر، زمین کو محفوظ رکھنے میں معاون
کرہ ارض کا تقریباﹰ 70 فیصد حصہ سمندروں پر مبنی ہے۔ یہ سمندر اس سیارے کی پچاس فیصد آکسیجن پیدا کرنے کا باعث بھی ہیں۔ اس زمین پر حیاتیاتی تنوع کو برقرار رکھنے والے یہ سمندر دنیا بھر میں ایک بلین نفوس کو پروٹین مہیا کرنے کا بھی ایک انتہائی اہم ذریعہ ہیں۔ یہ سمندر اس زمین کا تحفظ یقینی بناتے ہیں، اس لیے یہ یقینی بنانا ہے کہ سمندر آلودہ نہ ہوں اور اس زمین کے نظام کو چلانے میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔
کاربن کا مقابلہ کرنے کی اہلیت
ساحلی علاقوں میں پائے جانے والے مینگرَوز کے درخت، آبی نباتات اور سالٹ مارشز (موٹی گھاس سے بھرپور ساحلی علاقے ) عام جنگلات کے مقابلے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو چار گنا زائد حد تک جذب کر لیتے ہیں۔ اس عمل کو بلیو کاربن ایکو سسٹم کہا جاتا ہے۔ پیرس کلائمٹ معاہدے کے تحت کاربن گیسوں میں کمی کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے یہ سمندری سسٹمز انتہائی ناگزیر ہیں۔
سمندری اقتصادیات کو مستحکم بنانا
سمندر اسی وقت اقتصادی ترقی کا ایک پائیدار ذریعہ رہیں گے جب ان کا استعمال پائیدار طریقے سے کیا جائے۔ ماہی گیری کے روایتی طریقے ساحلی علاقوں کی اقتصادیات میں بہتری میں اہم ہیں جبکہ اس سے حیاتیاتی تنوع اور مقامی کلچر کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ ’بلیو اکانومی‘ کا مقصد یہ بھی ہے کہ متبادل توانائی کے ذرائع استعمال کیے جائیں تاکہ بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حررات کی صورت میں اس زمین کا لائف سپورٹ سسٹم متاثر نہ ہو۔
بہت زیادہ مچھلیاں پکڑنے کا عمل ترک کیا جائے
سمندروں کو پائیدار بنانے کی خاطر غیر قانونی ماہی گیری کو روکنا بھی ضروری ہے۔ اس وجہ سے جزائر گالاپاگوز میں حیاتیاتی تنوع سے بھرپور آبی زندگی کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ چینی ماہی گیری کے بحری جہاز لاطینی امریکا کے سمندری پانیوں میں وسیع پیمانے پر ماہی گیری کر رہے ہیں، جسے گرین پیس نے ’لوٹ مار‘ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ بحیرہ روم میں بلیوفن ٹونا مچھلی کی بقا کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
پلاسٹک کا کچرہ دان
گریٹ پیسفک گاربیج پیَچ پلاسٹک اور مائیکرو پلاسٹک کوڑے کا ایک بڑا جزیرہ معلوم ہوتا ہے، جو اب امریکی ریاست ٹیکساس سے دو گنا بڑا ہو چکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں ایک اعشاریہ آٹھ ٹریلین پلاسٹک کے ٹکڑے جمع ہو چکے ہیں، جو اسّی ہزار ٹن کے کچرے کے وزن کے برابر ہے۔
بجلی کا حصول
سمندروں کی صاف لہروں کی مدد سے 2030ء تک یورپ میں بجلی کی ضروریات کا 10 فیصد حاصل کیا جائے گا۔ اس براعظم میں اس طرح بجلی کا حصول برطانیہ میں سب سے زیادہ اہم قرار دیا جاتا ہے۔
’سمندر زندگی سے جڑے ہیں‘
سابق امریکی صدر جان کینیڈی نے انسانوں کا پانی کے ساتھ تعلق بیان کرتے ہوئے کہا تھا، ’’انسانی جسم میں موجود رگوں میں دوڑتے خون میں نمک کی اتنی ہی مقدار ہے، جو سمندری پانی میں پائی جاتی ہے، اس لیے ہمارے خون، پسینے اور آنسوؤں میں بھی نمک ہوتا ہے۔‘‘ علامت نگاری کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا تھا، ’’ہم سمندر سے جڑے ہوئے ہیں اور جب سمندر کی طرف بڑھتے ہیں، ہم اسی سمت جا رہے ہوتے ہیں، جہاں سے ہم آئے ہیں۔‘‘