سن 2022 میں سیاحت کے رجحانات
یورپ میں موسم گرما سیاحت کے لیے بہترین ہوتا ہے۔ اس سال تعطیلات کی منصوبہ بندی کا وقت آگیا ہے۔ تاہم کووڈ کی عالمی وبا نے سیاحتی سرگرمیوں کو بھی بدل کر رکھ دیا ہے۔
جرمنوں کا بین الاقوامی سیاحت سے گریز
کووڈ کی عالی وبا کے دوران جرمنوں نے دیگر ممالک جانے سے اجتناب برتا اور اپنے ہی ملک میں چھٹیاں منانے کو ترجیح دی۔ سورج کی تلاش میں تھائی لینڈ یا یونان جانے کی بجائے جرمن شہریوں نے ملک کے گرم علاقوں کی طرف رخ کیا تاکہ کووڈ کی انفیکشن سے بچا جا سکے۔ یہ رحجان اس سال بھی غالب رہے گا۔
کیمپنگ لیکن بھیڑ سے دور
کورونا کی عالمی وبا کی وجہ سے سیاحوں کے لیے ہوٹل بند رہے۔ اس دوران موبائل ہوم اور کیمپنگ ہاؤسز کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا۔ اگر آپ کیمپنگ کے موڈ میں ہیں تو جلد بکنگ کریں ورنہ دیر ہو جائے گی۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ فیول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے ایسی تعطیلات مہنگی بھی پڑیں گی۔
ویکیشن ہوم، اکیلے رہیں!
ہوٹل میں چھٹیاں گزارنے کا ایک مزہ یہ بھی ہے کہ ناشتہ دستیاب ہوتا ہے اور سوئمنگ پولز بھی راحت کا باعث بنتے ہیں۔ تاہم گزشتہ دو برسوں میں کووڈ انیس کی وجہ سے وہاں بھی یہ سہولیات دستیاب نہیں تھیں۔ اس وجہ سے لوگوں نے سماجی رابطوں کو برقرار رکھنے کی خاطر پرائیوٹ ویکیشن ہومز کا رخ کیا اور یوں ایسے تعطیلاتی گھروں کی مانگ بھی بڑھ گئی۔ اس سال بھی ایسے مقامات مہنگے ہی ملیں گے۔
سائیکلوں کی مانگ میں اضافہ
کووڈ انیس کی عالمی وبا کی وجہ سے لوگ سائیکلوں کی طرف بھی راغب ہوئے ہیں تاکہ پبلک ٹرانسپورٹ میں انفیکشن سے بچا جا سکے۔ جرمنی میں بالخصوص ای سائیکلوں کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔ لوگ نواحی علاقوں میں سائیکلوں پر گھومنے جا رہے ہیں۔ کورونا پابندیوں میں مرحلہ وار نرمی کی جا رہی ہے اور امکان ہے کہ ان سائیکلوں کی مانگ میں بھی کمی ہو گی۔
ہوم آفس یا آرام دہ آفس
کووڈ کی عالمی وبا میں ہوم آفس کے کلچر میں بھی عام ہوا ہے۔ کچھ لوگ تو پرسکون مقامات سے بھی کام کرنے لگے لیکن یہ سہولت سبھی دفاتر کے ملازمین کو نہیں ملی۔ کینری جزیرے نے ہوم آفس کو ایک نئی جدت دی، جہاں لوگ آرام دہ ماحول میں سماجی رابطوں سے دور انجوائے بھی کر سکتے ہیں اور دفتری کام بھی۔
کروز انڈسٹری کو بڑا نقصان
کووڈ انیس نے کروز انڈسٹری کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ صرف جرمنی میں ہی دیکھا جائے تو سن 2019 میں کروز میں تعطیلات منانے والوں کی تعداد 3.7 ملین تھی، جو سن 2020 میں کم ہو کر 1.4 ہو گئی۔ سن دو ہزار اکیس میں تو یہ صفر ہی ہو گئی۔ کروز میں کورونا حفظان صحت کا خیال رکھنا مشکل کام ہوتا ہے۔ کورونا کی وبا ختم ہونے کے بعد بھی اس صنعت کی بحالی آسان کام نہ ہو گا۔
جہازوں کے کرایوں میں اضافہ
کووڈ انیس کی عالمی وبا کے سبب لوگوں نے جہازوں کا سفر کم کر دیا، جس کی وجہ سے کرایوں میں اضافہ ہو گیا۔ ہوا بازی کی صنعت کو بھی اس وبا نے شدید مالی نقصان پہنچایا ہے تاہم اب لوگوں نے جہازوں کا سفر دوبارہ شروع کر دیا ہے۔ تاہم خسارے سے نکلنے کی خاطر ان کمپنیوں کو ابھی کچھ وقت لگے گا۔ یعنی اس سال بھی چھٹیاں منانے والے افراد کو جہاز کے بھاری کرائے ادا کرنا پڑ سکتے ہیں۔
ماسک، ٹیسٹ اور سماجی رابطے
کورونا کی عالمی وبا کے دوران ہوائی کمپنیوں نے مختلف قواعد متعارف کرائے، جن میں دوران سفر ماسک پہننا، سماجی رابطے برقرار رکھنا، ویکسین کا ثبوت دینا یا نیگیٹیو ٹیسٹ رپورٹ وغیرہ۔ اس کے علاوہ مختلف فارمز بھرنا اور دیگر لوازمات نے سیاحت کو پیچیدہ بنا دیا تھا۔ اگرچہ اب یہ پابندیاں ختم ہو رہی ہیں لیکن ابھی کچھ وقت لگے گا۔ اس کے مکمل خاتمے سے قبل کم از کم سن دو ہزار بائیس کی گرمیاں تو گزر ہی جائیں گی۔
طویل سفر دوبارہ ممکن
کووڈ انیس کی وبا نے سیاحت کی خاطر طویل سفر کرنا بھی مشکل بنا دیا تھا۔ تاہم اس سال لوگ تعطیلات کی خاطر بڑے بڑے منصوبے بنا رہے ہیں۔ تھائی لینڈ، انڈونیشیا یا جنوبی افریقہ کے روح افزا نظاروں سے لطف اندوز ہونے کی خاطر لوگ اب طویل سفر کر سکیں گے۔ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں بھی ایسی تعطیلات زندگی کا ایک تجربہ قرار دی جاتی ہیں، جو کچھ برسوں کے وقفے کے بعد دوبارہ ممکن ہو چکا ہے۔
یورپ سب سے زیادہ مقبول
اس سال یورپ کے مقبول ترین سیاحتی مقامات مثال کے طور پر وینس کے سینٹ مارک اسکوائر پر شاید ویسا ہجوم نہ ہو لیکن سیاح بالخصوص اٹلی کے دیگر مقامات اور آسٹریا کے قدرتی مناظر دیکھنے اور دھوپ میں سستانے ضرور جائیں گے۔ جرمنوں میں ایسٹر کی چھٹیوں میں اٹلی مقبول ترین سیاحتی مقام ہوتا ہے۔ اگر سیاح جہازوں کی مہنگی ٹکٹوں سے جان بچانا چاہتے ہیں تو وہ ٹرین یا اپنی گاڑی سے بھی یورپ میں گھوم سکتے ہیں۔
پائیدار سیاحت پر زور
ایسے یورپی سیاحتی مقامات، جہاں عمومی طور پر سیاحوں کا رش زیادہ ہوتا تھا، کورونا کی وبا نے وہاں کے حکام کو سوچنے کا موقع دیا ہے کہ سیاحت کو پائیدار اور ماحول دوست کیسے بنایا جائے۔ چونکہ کورونا کے دوران لوگ ان مقامات کی طرف نہ جا سکے، اس لیے وہاں ماحول کی آلودگی میں بھی کمی آئی ہے۔ اب یہ ایک موقع ہے کہ وہ اس صنعت کو زیادہ ماحول دوست بنا سکتے ہیں۔