’سندر بن کے ساحل سمندری کچھوؤں کےلیے محفوظ نہیں رہے‘
27 دسمبر 2012نومبر اور مارچ کے درمیانی عرصہ میں سبز کچھوؤں سمیت سمندری کچھوؤں کی کئی اقسام انڈے دینے کےلیے ہزاروں میل کا سفر کر کے دنیا کے سب سے بڑے چَمرنگ یعنی مینگروز کے جنگلوں پر مشتمل سندربن کے ریتلے ساحلوں کا رخ کرتی ہیں۔
بھارتی حکومت کے سندربن حیاتیاتی منصوبے کے ڈائریکٹر پردیپ ویاس نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، 'سندر بن میں خلیج بنگال کے وسیع ساحل خالی لگتے ہیں اور ابھی صرف چند کچھوؤں نے وہان پہنچ کر انڈے دینے شروع کر دیے ہیں۔ ہم نے ایسے چھ جزائر پر نظر رکھی ہوئی ہے جہاں سمندری کچھوے انڈے دیتے ہیں لیکن خدشہ ہے کہ سمندری آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے یہاں اب کچھوؤں کی آمد میں کمی واقع ہوئی ہے۔'
سندربن بنگلہ دیش کی 60 فیصد سمندری اور جنگلی حیات کا مسکن ہے اور اس پرانی ساحلی پٹی پر آنے والے سمندری کچھؤوں کی تعداد میں پچھلے دس سال میں 50 فیصد کمی آئی ہے۔
بنگلا دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں قائم سینٹر فار ایڈوانسڈ ریسرچ ان نیچرل ریسورسز اینڈ مینجمنٹ کے سربراہ ایس ایم راشد کہتے ہیں، 'یہ بہت ہی بھیانک تصویر ہے، 1990 میں ایک ہی رات میں ہم 50 سے 60 کچھوؤں کو ساحل پر گھونسلے بناتے دیکھتے تھے مگر اب ان کی تعداد زیادہ سے زیادہ 10 کے قریب ہو گی۔'
ماہرین ماحولیات اس صورتحال کا ذمہ دار بےتحاشا ماہی گیری، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سمندروں کی سطح اور سمندری طوفانوں میں اضافے کو قرار دیتے ہیں، جن کی وجہ سے کچھوؤں کو افزائش نسل کےلیے درست ماحول میسر نہیں آ رہا ہے، لوگوں کی طرف سے ان کے انڈے چوری کرنا بھی ایک اور بڑا مسئلہ ہے، جس سے ان کی آبادی کم ہو رہی ہے۔
جنگلی حیات کے عالمی ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف سے منسلک بھارتی ماہر ماحولیات انوراگ ڈانڈا کے خیال میں سمندری کچھوؤں کے انڈے دینے کے ٹھکانے طوفانوں اور تازہ ریت کی وجہ سے منہدم ہو گئے ہیں۔ ''یہ سب ماحولیاتی تغیرات کی وجہ سے ہو رہا ہے، کچھوے سخت طوفانی ہواؤں کی وجہ سے بھی سندربن کا رخ کرنے سے کترا رہے ہیں۔''
بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان 10 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلے دلدلی علاقے سندربن کے جنگلات جہاں بنگالی چیتوں کےمسکن کے طور پر مشہور ہیں، وہیں کئی نایاب سمندری حیات کا بھی وطن سمجھے جاتے ہیں۔
(rh/at(AFP