سنسر شپ کی شکار ترک صحافت ہانپتی ہوئی
1 مئی 2015ترکی میں رواں برس میڈیا کی صورتحال پر ایک ترک صحافی یاوؤز بیدار کا یہ بیان ہی کافی ہے کہ،" ایک بند کیبن میں آکسیجن کی مقدار مسلسل کم ہوتے ہوئے ایک شخص کے جو احساسات ہوتے ہیں ترکی میں ایک صحافی ایسا ہی محسوس کرتا ہے" ۔
ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ملک ترکی میں صحافیوں کے لیے آزاد فضا میں کام کرنا اور سانس لینا دونوں ہی بہت مشکل ہے۔ خاص طور سے ایسے صحافی جو اپنے پیشے کے وقار اور سالمیت کے ساتھ ساتھ عوامی مفادات کی پرواہ کرتے ہیں، ان کے لیے ترکی میں کام کرنا آسان نہیں ہے۔ اس ملک میں صحافیوں کو دو طرح کے دباؤ کا سامنا ہے۔ ایک طرف تو مختلف طریقوں سے سنسر شپ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے دوسری جانب خود ساختہ سنسر شپ کے رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔ یہ تمام صورتحال مل کر رپورٹوں اور تبصروں کی اشاعت کے عمل کو مفلوج بنا دینے کا سبب بنی ہے۔
گیزی پارک کے مظاہروں کے بعد سے کرپشن سے متعلق اطلاعات ہوں یا اسلامک اسٹیٹ کی سرگرمیوں اور اُن کی طرف سے ہونے والے حملے، 40 سے زائد بار خبروں پر سنسر لگایا جا چُکا ہے تاکہ عوام تک حقیقت نہ پہنچ سکے۔ خاص خاص ایونٹس کی کوریج کے لیے صحافیوں کی طرف سے درج کردہ درخواستوں کو مسترد کر دینا روز مرہ کا معمول بن چُکا ہے۔ نقاد اخباروں کی ترک ایئر لائنز کی پروازوں اور ہوائی اڈوں کے ساتھ ساتھ سرکاری دفاتر کے دروازے بھی مکمل طور پر بند رہتے ہیں۔ ترکی میں میڈیا کا نگران ادارہ RTUK اہم ترین سنسر بورڈ کی حیثیت سے اپنا کام انجام دے رہا ہے۔ یہ آئے دن ٹیلی وژن چینلز پر جرمانے عائد کرتا رہتا ہے۔
دھمکی ہی کافی ہے
ترکی میں روزانہ کی بنیادوں پر گرچہ صحافیوں کو گرفتار نہیں کیا جاتا ہے تاہم انہیں دھمکیاں آئے دن ملتی رہتی ہیں۔ صدر ایردوان کی مبینہ توہین کے الزام میں صحافیوں، بلاگرز اور ٹوئیٹ کرنے والوں کے خلاف قانون پوچھ گچھ اور عدالتی مقدمات کا سلسلہ عروج پر ہے۔ ایک آدھ کیس میں تو صحافیوں کو لمبی قید کی سزا بھی سنائی گئی ہے۔
رپورٹرز وید آؤٹ بارڈرز کے مطابق ترکی کی جیلوں میں قریب 20 صحافی سزائیں کاٹ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ترکی کے ٹیلی وژن چینل’ سمانیولو‘ کے سربراہ ہدایت کراچا کو گزشتہ دسمبر میں دہشت گردی کے شبے میں گرفتار کر لیا گیا تھا اور وہ اب تک زیر حراست ہیں۔ ایک آزاد اخبار ’ طاراف‘ کے تحقیقاتی صحافی ’مہمت بارنسو‘ کو بھی اسی قسم کے ایک سنگین کیس میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ان پر خفیہ ریاستی دستاویزات حاصل کرنے کا الزام ہے۔ حکومتی حلقوں میں اُسے ’جاسوس‘ کہا جا رہا ہے۔ ان دونوں کیسوں کی وجہ سے ترکی میں صحافت مزید مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ مجموعی طور پر ترکی میں 80 فیصد میڈیا حکومت کے کنٹرول میں ہے اور نا اہل ہے۔ خطرے کی گھنٹیاں بہت زور زور سے بج رہی ہیں۔
یاوؤز بیدار ’ آزاد صحافت‘ نامی ایک پلیٹ فارم کے بانی اراکین میں سے ایک ہیں۔ یہ انگریزی زبان میں شائع ہونے والے ترک روزنامے ’ Today,s Zaman‘ کے کالم نگار اور امریکی آن لائن اخبار ’ Huffington Post‘ کے بلاگر بھی ہیں۔