سنوڈن کے لیے کوئی رحم نہیں، ارکانِ کانگریس
4 نومبر 2013انہوں نے یہ بات جرمنی کی گرین پارٹی کے رکنِ پارلیمنٹ ہانس کرسٹیان شٹرؤبیلے کی ایڈورڈ سنوڈن سے روس میں ہونے والی حالیہ ملاقات کے تناظر میں کہیں ہیں۔ شٹرؤبیلے نے گزشتہ جمعرات کو سنوڈن سے ملاقات کی تھی اور وطن واپسی پر سنوڈن کا ایک خط بھی ساتھ لائے تھے۔ اس جرمن رکنِ پارلیمنٹ کا کہنا تھا کہ سنوڈن ’ممکنہ طور پر سنجیدہ جرائم‘ پر روشنی ڈالنے کے لیے کانگریس کے سامنے گواہی دینے کے لیے تیار ہیں۔
تاہم سینیٹر ڈیان فائن اشٹائن نے سی بی ایس ٹیلی وژن کے پروگرام ’فیس دی نیشن‘ کے دوران بات چیت میں کہا ہے کہ سنوڈن ایسا کرنے کا موقع کھو چکے ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انہوں نے کہا: ’’ان کے پاس ایک موقع تھا، اگر وہ کسی راز سے پردہ اٹھانا چاہتے تھے تو وہ فون اٹھاتے اور ہاؤس انٹیلیجنس کمیٹی، سینیٹ انٹیلیجنس کمیٹی سے کہتے، دیکھیے، میرے پاس کچھ معلومات ہیں جو آپ کو دیکھنا چاہییں۔‘‘
ڈیموکریٹ سینیٹر فائن اشٹائن نے مزید کہا: ’’ہم ان سے ملتے اور معلومات کا جائزہ لیتے۔ ایسا نہیں ہوا، اور اب وہ ہمارے ملک کو بہت بڑا نقصان پہنچا چکے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا: ’’اور میرے خیال میں جواب یہ ہے کہ کوئی رحم نہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ سنوڈن کے خلاف مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔ رکنِ کانگریس مائیک راجر نے کہا ہے کہ انہیں ایسی کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی جس کی بنیاد پر سنوڈن پر سے ممکنہ الزامات ہٹائے جائیں۔
راجرز نے کہا: ’’اگر وہ واپس آنا چاہتے ہیں اور اس حقیقت کی ذمہ داری لینا چاہتے ہیں کہ انہوں نے معلومات چرائیں، انہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی، انہوں نے خفیہ معلومات عام کیں ۔۔۔ تو مجھے اس حوالے سے ان سے بات کر کے خوشی ہو گی۔‘‘
امریکا کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) کی جانب سے جاسوسی کے انکشاف پر واشنگٹن اور برلن کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔ اکتوبر میں جرمنی کے اخبار بِلڈ اور میگزین ڈیر اشپیگل نے سنوڈن کی جانب سے عام کی گئی خفیہ دستاویزات کےحوالے سے یہ رپورٹ دی تھی کہ این ایس اے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے موبائل فون کی نگرانی کرتی رہی ہے۔
اس حوالے سے سی بی ایس کے ساتھ ہی ایک علیحدہ انٹرویو میں این ایس اے اور سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ مائیکل ہیڈن نے کہا: ’’میں جانتا ہوں کہ چانسلر پریشان ہیں اور ہم دوست ہیں اور ان انکشافات نے انہیں ایک مشکل سیاسی مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔‘‘