سوئٹزرلینڈ: مساجد میں میناروں کی تعمیر پر پابندی
30 نومبر 2009میناروں کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ مساجد کے مینار مذہب سے جڑے محض فن تعمیر کےنمونے نہیں بلکہ بنیادی انسانی حقوق کی مخالف سیاسی اور مذہبی طاقت کی علامت ہیں۔
اتوار کے روز منعقدہ اس ریفرینڈم کا مطالبہ انتہائی دائیں بازو کی سوئس پیپلز پارٹی SPP نے کیا تھا، جو ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ اس جماعت نے ملک گیر مہم میں اٹھارہ سال عمر کے ایک لاکھ شہریوں سے ریفرینڈم کی حمایت میں دستخط لئے تھے۔ مینار مخالف مہم کے دوران جنیوا شہر میں ایک مسجد کی بے حرمتی بھی کی گئی۔
مصر کے مفتی علی گوما نے میناروں کی تعمیر پر پابندی کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے مسلمانوں کی بے عزتی قراردیا تاہم مسلمانوں کو تلقین کی کہ وہ ہرگز مشتعل نہ ہوں۔ گزشتہ روز سوئٹزلینڈ کے مختلف شہروں میں مسلمانوں نے اس فیصلے پر افسوس کے اظہار کے طور پر پر امن مظاہرے کئے۔ سوئٹزرلینڈ کے مسلمان شہریوں کا کہنا تھا کہ انہیں میناروں پر پابندی لگنے سے اتنا دکھ نہیں ہوا، جتنا اس بات کا کہ ان کے مذہبی جذبات کا احترام نہیں کیا گیا۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سوئس حکومت کے اعلان کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی قرار دیا۔ سوئٹزر لینڈ کی گرین پارٹی نے بھی اس حکومتی فیصلے کے خلاف یورپی یونین کی انسانی حقوق کی عدالت میں مقدمہ دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
دوسری طرف میناروں پر پابندی لگنے کے اس فیصلے پر یورپ بھر میں دائیں بازو کے سیاست دانوں نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ سوئس حکومت نے البتہ ملکی مسلم اقلیت کو یقین دلایا ہے کہ فیصلے کا مطلب ان کے مذہب یا ثقافت کو مسترد کرنا نہیں۔ ملکی وزیر انصاف ایویلین وڈمرشلمپف کے بقول ریفرنڈم کے ذریعے عوام نے مساجد میں میناروں کی تعمیر سے متعلق ملک میں اسلامی بنیاد پسندی پھیلنے کا خوف ظاہر کیا ہے۔ شلمپف نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس فیصلے سے مسلم ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔
سوئٹزر لینڈ میں مسیحیت کے بعد اسلام دوسرا بڑا مذہب ہے جبکہ پچھتر لاکھ کی مجموعی آبادی کا پانچ فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ان میں ترکی اور سابق یوگوسلاویہ سے تعلق رکھنے والے مسلمان نمایاں ہیں۔
رپورٹ :شادی خان سیف
اداررت : امجد علی