سوئٹزرلینڈ: مسلم طلبہ خاتون اساتذہ سے مصافحے سے انکاری
4 اپریل 2016جنیوا سے پیر چار اپریل کی شام ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ان مسلم طلبہ کے موقف اور اس سلسلے میں حکام کے ردعمل کو ’ایک یورپی معاشرے کی بنیادی سماجی اقدار سے عدم مطابقت‘ کے باعث بہت سے حلقے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔
اس تنازعے کی ابتدا شمالی سوئٹزرلینڈ کے ’بازل کنٹری‘ نامی کینٹن سے ہوئی، جہاں تھیروِل Therwil نامی بلدیاتی علاقے میں دو مسلمان طالب علموں نے حکام سے شکایت کی کہ انہیں مقامی سوئس روایات کے مطابق اپنی خاتون اساتذہ سے ہاتھ ملانا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایسا نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اگر ٹیچر کوئی خاتون ہو تو ان کے لیے استاد سے مصافحہ کرنا ان کے مسلم مذہبی عقائد کے خلاف ہے۔
اس سلسلے میں ان مسلم طلبہ نے دلیل یہ دی تھی کہ اسلام کسی مسلم مرد کو اپنے خاندان کی قریبی یا محرم خواتین کے علاوہ کسی غیر محرم خاتون کو چھونے کی اجازت نہیں دیتا، چاہے چھونے سے مراد صرف ہاتھ ملانا ہی کیوں نہ ہو۔ اس پر تھیروِل میں مقامی محکمہ تعلیم کے حکام نے ان مسلمان طلبہ کو اجازت دی دے کہ اگر وہ چاہیں تو اپنی اساتذہ سے ہاتھ نہ ملائیں۔
لیکن حکام کے اس فیصلے پر پورے سوئٹزرلینڈ میں احتجاج کی ایک لہر شروع ہو گئی۔ سائنس، تعلیم اور ثقاتی امور سے متعلق سوئس پارلیمانی کمیشن کے سربراہ فیلکس میوری نے اس فیصلے پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’مصافحہ کرنا تو ہماری ثقافت کا ایک حصہ ہے۔‘‘ انہوں نے ’بیس منٹ‘ یا 20Minuten نامی نیوز ویب سائٹ کو بتایا، ’’ہاتھ ملانا تو کسی کو عزت دینے کا طریقہ اور اچھی اخلاقیات کی علامت ہے۔‘‘
سوئٹزرلینڈ میں ملک کے مختلف انتظامی حصوں کو کینٹن cantonکہتے ہیں، جنہیں چھوٹے چھوٹے صوبے بھی کہا جا سکتا ہے۔ ان انتظامی یونٹوں کے وزرائے تعلیم کی سوئس قومی کانفرنس کے سربراہ کرسٹوف آئمان نے کہا، ’’عمومی ضابطوں پر عمل درآمد میں اس طرح کے استثنائی فیصلے کوئی حل تو نہیں ہیں۔‘‘
کرسٹوف آئمان نے اس بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے سوئس ٹیلی وژن کو بتایا، ’’ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ عوامی شعبے میں خدمات انجام دینے والی خواتین کے ساتھ اس طرح مردوں سے مختلف برتاؤ کا مظاہرہ کیا جائے۔‘‘
مسلم طلبہ کے خاتون اساتذہ سے ہاتھ ملانے یا نہ ملانے سے متعلق اس تنازعے میں تھیروِل کے بلدیاتی علاقے میں حکام نے جو فیصلہ کیا، وہ وہاں کے مقامی اسکول سسٹم کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ اس اسکول سسٹم کی خاتون نگران کرسٹین آکیریٹ نے ذرائع ابلاغ کو بتایا، ’’میں بھی اس فیصلے پر مطمئن نہیں ہوں۔ لیکن اس شکایت کے حل کا کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں تھا۔‘‘
کرسٹین آکیریٹ نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’جب کوئی آپ کا طرز زندگی اپنانے سے انکار کر دے تو مشکل کھڑی ہو جاتی ہے۔‘‘ انہوں نے یہ شکایت بھی کی کہ جب انہوں نے اس مسئلے کے بارے میں ارد گرد کے انتظامی علاقوں کے حکام کو آگاہ کیا تو کسی نے ان کی کوئی مدد نہ کی۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ تھیروِل میں حکام کے اس فیصلے کو منسوخ کرنے کا اختیار بازل کنٹری کے کینٹن حکام کے پاس ہے تاہم ان اہلکاورں سے ان کا موقف جاننے کے لیے پیر کی شام تک کی کوششوں کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔