سوات میں صحافی موسیٰ خان خیل کا قتل
19 فروری 2009ان سے قبل سراج الدین، عبدالعزیز اور قاری محمد شعیب کو بھی قتل کر دیا گیا تھا جب کہ متعدد صحافیوں کے گھر مسمار کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے رشتہ داروں کو بھی قتل کئے جانے کا سلسلہ جاری رہا۔
جیو ٹیلی ویژن کے مقتول صحافی موسیٰ خان خیل مینگورا سے مٹہ جانے والی اس امن ریلی کی کوریج رہے تھے جو کالعدم تنظیم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد کی قیادت میں مٹہ میں طالبان کے سربراہ مولانا فضل اللہ سے مذاکرات کے لئے جا رہی تھی۔ موسیٰ خان خیل تحصیل مٹہ میں امن ریلی کی کوریج کر رہے تھے کہ انہیں نامعلوم افراد نے اغواء کیا اور کچھ دیر بعد ان کی لاش تحصیل مٹہ سے ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ڈیڈپانی نامی علاقے سے برآمد ہوئی۔ ان کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لئے سیدو شریف ہسپتال پہنچایا گیا۔ ہسپتال ذرائع کے مطابق انہیں سر اور سینے میں چار گولیاں ماری گئیں۔
موسیٰ خان خیل سوات کے سینئیر صحافیوں میں سے ایک تھے جو 1993 میں صحافت سے وابستہ ہوئے تھے۔ موسیٰ خان خیل کے قتل پر ان کے بھائی عیسیٰ خان خیل کا کہنا تھا ’’ریلی کے دوران مٹہ کے مقام پر نامعلوم افراد نے گن پوئینٹ پر ان کو اغواء کیا پھر ان کو گولی ماردی۔ ہماری کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہ تھی نہ ہے۔‘‘
سرحد حکومت کی جانب سے مالاکنڈ میں نظام عدل کے نفاذ کے اعلان اور کالعدم تنظیم تحریک نفاذ شریعت محمدی کی جانب سے سوات میں امن ریلی کی کوریج کے لئے ملک بھر کے میڈیا سے وابستہ افراد سوات میں موجود ہیں جنہوں نے موسیٰ خان کی لاش اٹھا کر سڑک پر احتجاج کیا۔ اس موقع پر احتجاج کرنے والے صھافیوں نے حکومت سے موسیٰ خان کے قاتلوں کی فوری گرفتاری اور قرار واقعی سزا کا مطالبہ بھی کیا۔ حکومت نے اس قتل کی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو دس روز میں اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کرے گی۔