سوات میں طالبان کی دوبارہ آمد کا خوف
23 اپریل 2010پرتشدد واقعات کا آغاز پیر کو ضلع صدر مقام مینگورہ شہر میں ایک خودکش حملے میں چھ افراد کی ہلاکت سے ہوا جبکہ اب گزشتہ دو ہفتوں میں وادی میں حکومت کے حامی کم از کم پانچ بڑے سیاسی رہنما مارے جاچکے ہیں۔
وادی میں مئی 2009 کے فوجی آپریشن کے بعد سے فوج متعین ہے جبکہ ہجرت کرجانے والے لاکھوں مقامی لوگ بھی واپس آچکے ہیں تاہم حالیہ واقعات سے دوبارہ بے چینی پھیل گئی ہے۔ آپریشن کے کچھ ہی عرصے بعد بعض ایشی نعشیں بھی ملی تھیں جنہیں طالبان کا حامی قرار دیا جارہا ہے اور ان کے مبینہ قتل کی ذمہ داری فوج پر عائد کی جارہی تھی۔ سوات میں طالبان کے لیڈر ملا فضل اللہ تاحال لاپتہ ہیں۔
سوات امن کمیٹی کے سربراہ انعام الرحمان کے بقول روں ہفتے کزہ بانڈئی کے علاقے میں مقامی لشکر کے سربراہ بہرکرم خان اور ان کے ساتھی عاقل شاہ کے قتل کے بعد صورتحال مزید سنگین ہوگئی ہے۔ ان کے مطابق عسکریت پسند اب ہدف بناکر منصوبہ بندی سے وارداتیں کررہے ہیں۔ کوزہ بانڈی میں ان افراد کی ہلاکت سے قبل چار مبینہ طالبان کی نعشیں ملی تھیں تاہم ان کے پاس سے کسی قسم کی ’پرچی‘ برآمد نہیں ہوئی۔
مینگورہ کے ایک ریستوران میں کام کرنے والے شخص نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ عسکریت پسند رات میں وارداتیں کررہے ہیں، اگر صورتحال پر قابو نہ پایا گیا توحالات پھر سے پہلے جیسے ہوجائیں گے۔ مقامی پولیس عہدیدار قاضی غلام فاروق تسلیم کرتے ہیں کہ بعض طالبان عسکریت پسند وادی میں دوبارہ داخل ہوگئے ہیں۔ فوجی ترجمان میجر جرنل اطہر عباس کے بقول یہ کہنا ہے طالبان وادی میں دوبارہ منظم ہورہے ہیں قبل از وقت ہے۔ صوبائی حکومت ان دنوں 36 ملین ڈالر کی امریکی امداد کے تحت سوات وادی کی تعمیر نو کے منصوبے کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہے۔
پاکستان فوج ان دنوں قبائلی علاقے اورکزئی ایجنسی میں شدید نوعیت کے کارروائیوں میں مصروف ہے جس میں جنگی طیاروں اور پوپ خانے کا استعمال بھی کیا جارہا ہے۔ فوج نے اورکزئی اور خیبر ایجسنیوں میں گزشہ ماہ شروع کئے گئے آپریشن میں 350 سے زائد مبینہ عسکریت پسندوں کی ہلاکت کے دعوے کئے ہیں۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : عدنان اسحاق