1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوات میں ماورائے قانون قتل کے واقعات: ہیومن رائٹس واچ

17 جولائی 2010

انسانی حقوق کی نگران بین الاقوامی تنظیم نے اپنی خصوصی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ وادی سوات میں پاکستانی فوج نے آپریشن ’راہ نجات‘ کے دوران دو سو سے زائد افراد کو طالبان کے شبے میں ہلاک کیا ہے ۔

https://p.dw.com/p/ONiV
تصویر: AP

پاکستانی فوج کی جانب سے بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی اس رپورٹ کی تردید کی گئی ہے جس کے مطابق سوات میں مقامی طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کے دوران کم از کم 238 افراد کو طالبان کے شبے میں فوجی اہلکاروں نے اٹھایا اور بعد میں گولیوں سے چھلنی ان کی لاشیں مختلف مقامات سے برآمد ہوئیں۔

پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہرعباس کا مزید کہنا تھا کہ فوج آپریشن کے دوران ماورائے قانون ہلاکتوں میں قطعاً ملوث نہیں تھی۔ فوجی ترجمان کا اصرار ہے کہ مقامی مزاحمت کاروں کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی مشن انتہائی احتیاط سے مکمل کیا گیا تھا۔ سوات میں فوجی آپریشن مئی سن 2008 ء میں شروع ہوا تھا۔ اطہر عباس کے مطابق سوات کی صورت حال غیر معمولی تھی اور اس کو غیر معمولی انداز سے قابو میں لانے کی کوشش کی گئی تھی۔

ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ سوات کی پولیس بھی ہلاکتوں کے عمل میں ڈھکے چھپے انداز میں شریک ہے لیکن 238 ہلاکتوں کے حوالے سے جو شواہد اکھٹے کئے گئے ہیں ان میں فوج کے اہلکار زیادہ متحرک تھے۔ ان ہلاکتوں میں سات افراد کے ماورائے قانون ہلاک کئے جانے کی تفصیلات بھی بیان کی گئی ہے کہ ان افراد کو مشتبہ طالبان سمجھ کر فوج کی جانب سے پہلے حراست میں لیا گیا تھا۔ ان افراد کی لاشیں بعد میں جب ملی تو ان پر تشدد کے واضح نشانات موجود تھے اور ان کے جسموں کے بعض حصوں پر گولیاں ماری گئی تھیں۔

Neue Militäroffensive gegen Taliban in Pakistan
پاکستانی فوج نے سوات آپریشن کے دوران ماورائے قانون ہلاکتوں کی تردید کی ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے رپورٹ میں سات افراد کی ہلاکتوں میں ایک کے حوالے سے بتایاگیا کہ سوات کے علاقے مٹہ کے ایک مقامی شخص فرمان علی کو دو ساتھیوں سمیت اٹھائیس مارچ کو پاکستانی فوج کی بارہ پنجاب رجمنٹ کے اہلکاروں نے پابند کیا تھا۔ بعد ازاں فرمان علی کے ساتھ گرفتار کئے جانے والے دونوں افراد کی لاشیں طالبان عسکریت پسندکے رہنماؤں کے طور پر میڈیا کے سامنے پیش کی گئیں اور بتایا کہ یہ دونوں افراد فوج کے ساتھ جھڑپ میں ہلاک ہوئے تھے جب کہ فرمان علی کی لاش چھبیس مئی کو ایک کھیت میں پڑی ملی۔ اس کے سر میں گولی لگی ہوئی تھی۔

ہیومن رائٹس واچ کے پاکستانی نمائندے علی دایان حسن کا کہنا ہے کہ لوگوں کے سروں میں گولیاں مار کر پاکستانی فوج عام لوگوں کے دلوں کو جیت نہیں سکتی۔ علی دایان حسن کا مزید اس حوالے سے کہنا ہے کہ فرضی جھڑپوں سے پیدا ہونے والی ہلاکتیں مزید دشمن پیدا کرنے کا جواز پیدا کرتی ہیں۔ اس مناسبت سے سوات کے مقامیوں نے ہیومن رائٹس واچ کو تفصیلات فراہم کی تھیں۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: عاطف بلوچ